• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے سات سال پہلے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جی ٹی روڈ سے اسلام آباد جا رہا تھا۔ ہمیں صبح ایک ضروری کام تھا اس لیے رات کا سفر طے ہوا۔ ہم لوگ اپنی گاڑی پر تھے۔ راستے میں ایک ڈھابے پر چائے پینے کے لیے رُکے تو ایک عجیب بات ہوئی۔ ایک بھکاری ٹائپ کا شخص قریب آیا اور دس روپے مانگے۔ میں اسے پیسے دینے ہی لگا تھا کہ دوست نے منع کر دیا اور خود ہی بول پڑا ’جائو یار معاف کرو‘۔ اُس شخص کے چہرے پر یکدم غضبناک تاثرات ابھر آئے۔ گھور کر میرے دوست سے بولا ’’ڈیڑھ گھنٹے بعد تمہارا ایکسیڈنٹ ہو گا‘‘۔ یہ سنتے ہی میرا دوست بھی تائو کھا گیا اور جواباً بولا ’’آدھے گھنٹے بعد تمہارا بھی ایکسیڈنٹ ہو گا اور تمہاری دونوں ٹانگیں کٹ جائیں گی‘‘۔ بھکاری نے کوئی جواب نہیں دیا اور غصے سے دوسری طرف نکل گیا۔ میں سدا سے وہمی ہوں۔ دوست سے کہا کہ ’دس روپے دینے میں کیا حرج تھا‘ اب بلا وجہ سارے رستے ہول پڑتے جائیں گے۔ دوست نے کندھے اچکائے ’’غیب کا علم صرف خدا کو ہے، اگرخدا کو منظور ہوا تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا ورنہ نہیں۔‘‘ میں گھگھیایا ’’یار ہوسکتا ہے یہ کوئی اللہ کا بندہ ہو؟‘‘۔ دوست چلایا ’’تمہارا مطلب ہے یہ دس روپے کے عوض لوگوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرتا ہے؟‘‘۔ میں خاموش ہو گیا۔

چائے پینے کے بعد ہم گاڑی میں سوار ہوئے۔ گاڑی میرا دوست چلا رہا تھا۔ اب تک کی ڈرائیونگ میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا لیکن بھکاری کی بات کے بعد مجھے لگ رہا تھا جیسے سامنے والا ہر ٹرک ہماری طرف ہی آ رہا ہے۔ میں ہر دو منٹ بعد چیخ اٹھتا ’’دھیان سے… سامنے بس آرہی ہے‘‘۔ کچھ دیر تو میرے دوست نے برداشت کیا پھر دانت پیسے ’’چپ کر کے بیٹھ جائو‘ میں گاڑی چلا رہا ہوں مجھے بھی نظر آرہا ہے کہ سامنے سے کیا چیز آ رہی ہے‘‘ میں نے قدرے نرم لہجے میں گزارش کی ’’یار پلیز اِدھر کسی قریبی ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں‘ میری خاطر یہ منحوس ڈیڑھ گھنٹہ کسی طرح پار کر وا دو‘‘۔ اُس نے قہقہہ لگایا ’’اسی ڈیڑھ گھنٹے میں ہی تو ڈرائیونگ کرنا ضروری ہے تاکہ تمہیں بھی اندازہ ہو کہ اس طرح کے ڈھونگی کیسے جھوٹ بولتے ہیں‘‘ میں روہانسا ہوگیا ’’مان لیا کہ اس نے جھوٹ ہی بولا ہو گا لیکن ہمیں اسے آزمانے کی کیاضرورت ہے‘ کسی ہوٹل میں بیٹھتے ہیں‘ دوبارہ چائے بلکہ کھانا کھاتے ہیں‘ ڈیڑھ گھنٹہ دو منٹ میں گزر جائے گا‘‘ میری بات کے جواب میں دوست نے گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھائی اور بولا ’’پہلی بات تو یہ کہ ڈیڑھ گھنٹے میں سے آدھا گھنٹہ گزر چکاہے‘ اور دوسری یہ کہ خود تم ہی نے تو کہا تھا کہ سڑک کنارے ہوٹلوں کے کھانوں میں معیاری تیل استعمال نہیں کیا جاتا لہٰذا راستے سے کچھ نہیں کھانا‘‘۔ ’’ہاں کہا تھا لیکن راستے میں معیاری ہوٹلز بھی تو آتے ہیں وہاں سے تو کھایا جا سکتا ہے… چلو کافی پی لیں‘ یقین کرو تو مجھے کافی کی شدید طلب ہو رہی ہے‘ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بندہ سو جائے تو ڈرائیور کو بھی نیند آ جاتی ہے‘‘ یہ سنتے ہی دوست نے اطمینان سے گاڑی ایک طرف روکی۔ سگریٹ سلگایا اور جلتا ہوا سگریٹ میرے ہاتھ پر لگاتے ہوئے بولا ’’ان شاءاللہ اب تمہیں تین دن تک نیند نہیں آئے گی‘‘۔ میری کربناک چیخ نکل گئی۔ شکر ہے جلد جلنے سے بچ گئی تھی۔ میں نے بے اختیار ہتھیلی پر پھونکیں ماریں۔ گاڑی میں پڑی پانی کی بوتل سے ہتھیلی دھوئی۔ پھر بھی ہوش آتے آتے پانچ منٹ لگ ہی گئے۔ اچانک مجھے بھکاری یاد آیا اور بے ساختہ میری نظر گھڑی پر پڑی۔ ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ یعنی اب جو کچھ ہونا تھا آدھے گھنٹے میں ہونا تھا۔ میں نے اندازہ لگانا شروع کیا۔ یقیناً جہلم کے پاس یا تو گاڑی الٹے گی یا کوئی ویگن ہم پر چڑھ دوڑے گی۔ دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا۔ گاڑی رکوانا بہت ضروری ہوچکا تھا۔ میں نے کچھ دیر سوچا‘ پھر تیزی سے ایک طرف جھٹکا لیا۔ دوست نے چونک کر پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘۔ میں نے جلدی سے کہا ’’لگتا ہے میری طرف والا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے‘‘۔ اُس کے لہجے میں حیرت در آئی ’’ٹائر پنکچر ہوا ہے تو مجھے جھٹکا کیوں نہیں لگا؟‘‘۔ میں نے جلدی سے دلیل دی ’’یار میری طرف والا ٹائر پنکچر ہوا ہے‘ تمہیں کیسے جھٹکا لگتا؟‘‘ اُس نے زور سے بائیں ہاتھ سے میرے بازو میں چٹکی کاٹی ’’بونگے انسان! گاڑی کا کوئی بھی ٹائر پنکچر ہو تو سب سے پہلے ڈرائیور کو ہی پتا چلتا ہے‘‘۔ میں نے جلدی سے پینترا بدل کر ناگواری سے کہا ’’جانتا ہوں‘ مجھے تم سے اچھی گاڑی چلانا آتی ہے‘‘۔ تیر نشانے پر بیٹھا۔ دوست گرجا ’’میں 120کی اسپیڈ پر جا رہا ہوں‘‘۔ میں نے اطمینان سے کہا ’’میں تین سو تک جا سکتا ہوں‘‘۔ وہ چلایا ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ تین سو تک تو موٹر وے پر نہیں جایا جا سکتا‘ یہ تو پھر جی ٹی روڈ ہے‘‘۔ میں نے اٹل لہجے میں کہا ’’میں تین سو تک نہ جا سکا تو ہزار روپے جرمانہ دوں گا‘ لیکن اگر چلا گیا تو تم مجھے ہزار روپے دو گے… بولو منظور؟‘‘۔ اُس نے جواب دینے کے بجائے گاڑی آہستہ کی‘ انتہائی بائیں لین میں ہوا اور تھوڑا آگے جاکر گاڑی روک دی۔ ’’آئو‘ چلائو گاڑی اور تین سو کی اسپیڈ تک جا کے دکھائو‘‘۔ میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو ڈیڑھ گھنٹہ پورا ہونے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ میں نے جلدی سے گاڑی کی چابی جیب میں ڈالی اور کہا ’’بالکل میں چلائوں گا لیکن ذرا ٹانگیں تو سیدھی کر لوں‘ بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا ہوں‘‘ دوست بیزاری سے دوسری طرف دیکھنے گا۔ پانچ منٹ بعد اس کی آواز آئی ’’اب چلو‘ دیر ہو رہی ہے‘‘۔ میں نے سر ہلایا ’’ایک منٹ… میں ذرا ڈگی سے اپنا کوٹ نکال لوں‘ کچھ سردی لگ رہی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے گاڑی کی ڈگی کھولی اور سلو موشن میں اپنا بیگ نکال کر اس میں سے کوٹ نکالا۔ بیگ کی زپ بند کی‘ دوبارہ ڈگی میں رکھا اور کن اکھیوں سے گھڑی دیکھی۔ ابھی چار منٹ باقی تھے۔ میں نے دو منٹ کوٹ پہننے میں لگائے۔ گلاس نکال کر پانی پیا۔ گاڑی میں بیٹھا‘ سیٹ بیلٹ لگائی اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ گھنٹہ پورا ہو گیا۔ میری باچھیں کھل گئیں۔ میں نے اسی وقت دوست کی طرف دیکھا جو فیس بک کھولے بیٹھا تھا… اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ اللہ کا شکر ہے کوئی حادثہ نہیں ہوا اور ہم خیریت سے 80کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے اسلام آباد پہنچ گئے۔ میں نے پہنچتے ہی بڑے احترام سے دوست کو ایک ہزار کا نوٹ پیش کر دیا۔ ایسے وہم ہمارے دلوں میں روز مختلف لوگ ڈالتے ہیں۔ جن کا ٹیوا (تُکے کی تھرڈ فارم) ٹھیک نکلتا ہے انہیں ہم بابے مان لیتے ہیں‘ جو غلط نکلیں انہیں ساری زندگی کے لیے مسترد کر دیتے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ ویلنٹائن کا باپ کون تھا… وہ تو مجھے نہیں معلوم۔ سوری!

تازہ ترین