• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا پرظالم اور بے رحم ناقدین کو طنز کے تیر برساتے دیکھتا ہوں تو 1974ء میں ریلیز ہونے والی امیتابھ بچن کی فلم ’’مجبور ‘‘ کا ایک گانا یاد آتا ہے ۔کشور کمار کی جادوئی آواز کیساتھ فلمائے گئے اس گانے کے الفاظ ہیں’’آدمی جو کہتا ہے ،آدمی جو سنتا ہے ،زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں‘‘۔ہمارے عہد کے ’’آدمی‘‘ نے ماضی میں کیا کچھ کہا ،اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، آپ سب جانتے ہیں ۔تنقید کرتے وقت ان لوگوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے جو واقعی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ یہ ’’آدمی‘‘ اپنے ہیٹ سے کبوتر نکال کر سب کو دنگ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔حماقت کی حد تک سادہ اور معصوم ،یہ وہی لوگ ہیں جنہیں سوشل میڈیا کی کسی پوسٹ پر کہا جاتا ہے کہ کمنٹس میں 3لکھیں گے تو یہ اُلٹی تصویر سیدھی ہو جائے گی اور وہ نہایت خشوع و خضوع سے تین لکھنے کے بعد پوچھ رہے ہوتے ہیں ،تصویر سیدھی کیوں نہیں ہوئی۔بہر حال کامیڈی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ ٹریجڈی میں تبدیل ہوگیا ہے اور ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ہر روز یہ خوشخبری دی جاتی ہے کہ ہم فلاں جگہ سے اتنے ملین ڈالر کا قرضہ لینے میں کامیاب ہو گئے ،فلاں ملک نے ہماری قیادت ،معاشی وژن اور پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُدھار دینے کا فیصلہ کرلیا ۔اس نوعیت کے تہنیتی پیغامات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت کی کامیابی زیادہ سے زیادہ قرض کے حصول میں مضمر ہے اور شاید موجودہ سرکار کو مینڈیٹ ہی یہ ملا ہے کہ ایسے ،ویسے یا جیسے تیسے قرض لینے کے نئے ریکارڈ قائم کرنا ہیں ۔گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے دستیاب اعداد وشمار کی روشنی میں ایک خبر شائع اور نشر ہوئی کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران 2240ارب روپے کا قرض لیا ہے یعنی روزانہ اوسطاً 15ارب روپے قرض لیا جا رہا ہے ۔بہتر محسوس ہوتا ہے کہ ان اعداد وشمار کا سابقہ دو ادوار سے موازنہ کرلیا جائے تاکہ ’’چَس‘‘دوبالا ہو جائے ۔2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 6435ارب روپے تھا ۔پانچ سال کے دوران لئے گئے قرضوں کی اوسط نکالی جائے تو پیپلز پارٹی کی حکومت یومیہ 5ارب روپے قرض لے رہی تھی۔ مسلم لیگ(ن) کا دور آیا تو توانائی کا بحران خوفناک شکل اختیار کر چکا تھا۔ان پانچ برسوں کے دوران ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم 15096ارب روپے سے بڑھ کر 26968ارب روپے ہوگیا۔ان قرضوں کے نتیجے میں ملکی معیشت اور صنعت کو فروغ ملا۔معاشی نمو کے نتیجے میںایف بی آر کے محاصل جن کا حجم 2013ء میں 2000ارب روپے تھا ،اب بڑھ کر 4300ارب روپے ہو چکے ہیں۔ان پانچ برسوں کے دوران لئے گئے قرضوں کا یومیہ حساب کتاب لگایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت روزانہ کی بنیاد پر 7.7ارب روپے قرض لے رہی تھی لیکن اگر موجودہ اعداد وشمار کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت یومیہ 15ارب روپے قرض لے رہی ہے۔یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے جو قرض لیا اس کے مجموعے سے بھی کہیں زیادہ ۔

ان اعدادو شمار میں چین سے لیا گیا 3ارب ڈالر کا قرض شامل نہیں جو مرکزی بینک کی ذمہ داری ہے ،اس میں سعودی عرب سے دسمبر میں موصول ہونے والی ایک بلین ڈالر کی آخری قسط شامل نہیں ،اس میں متحدہ عرب امارات سے ملنے والا 3بلین ڈالر کا قرض شامل نہیں اور اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے لئے جانے والے 6ارب ڈالر کے اُدھار تیل کا حساب کتاب بھی نہیں لگایا گیا ۔اگر یہ تمام واجبات شمار کر لئےجائیں تو تحریک انصاف کی حکومت قرضوں کے حجم میں اوسطاً یومیہ 17ارب روپے کا اضافہ کر رہی ہے۔آئی ایم ایف سے بھی ڈیل فائنل ہوگئی ہے جس کا مطلب ہے کہ چند ماہ بعد غیر ملکی قرضوں میں مزید 6بلین ڈالر کا اضافہ ہونے والا ہے۔وزیر خزانہ اسد عمر صاحب ماشااللہ اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے پر مہارت رکھتے ہیں اور وفاقی وزیر بننے سے پہلے بتایا کرتے تھے کہ اس ملک کے نوزائیدہ بچوں سمیت ہر شہری کتنے لاکھ روپے کا مقروض ہے ۔اگر ان کے پاس تھوڑی بہت فرصت ہو تو حساب کتاب لگا کر قوم کو آگاہ کریں کہ پاکستان کے ہر شہری پر قرضوں کے بوجھ میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران کتنا اضافہ ہو چکا ہے؟

ملین ڈالر کا سوال تو یہ ہے کہ ہم اس قدر زور لگا کر جو پیسہ جمع کر رہے ہیں اس کا کریں گے کیا اور بلین ڈالر سوال یہ ہے کہ ان قرضوں کو واپس کرنا تو درکنار اس پر واجب الادا سود کیسے ادا کریں گے ؟پہلا سوال بے وجہ نہیں ہے ۔حساب کتاب بہت سیدھا اور سادہ ہے۔ رواں مالی سال میں بجٹ کا مجموعی حجم تقریباً6000ارب روپے ہے۔اس میں سے کم از کم 3600ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ہونے ہیں جو مجموعی بجٹ کا 68.2فیصد بنتے ہیں۔جبکہ باقی 2400ارب روپوں سے روزمرہ اخراجات کے علاوہ ترقیاتی منصوبے پورے کرنے ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا محاصلات کا ہدف 4300ارب روپے ہے یعنی آمدنی اور اخراجات میں 1700ارب روپے کا فرق ہے جسے بجٹ خسارہ کہا جاتا ہے۔دراصل اسی خسارے کو پورا کرنے کے لئے ہمیں قرض لینا پڑتا ہے ۔میں نے چند روز قبل ایف بی آر کے ایک افسر سے پوچھا کہ ہم اندھا دھند جو قرض لے رہے ہیں اس کا کیا کریں گے ؟روزانہ 17ارب روپے کا قرض لیا جا رہا ہے چلیں متفق علیہ اعداد و شمار پر بھی انحصار کریں تو روزانہ 15ارب روپے کے حساب سے سال بھر میں 5475ارب روپے لئے جا چکے ہونگے جبکہ ہمارا بجٹ خسارہ صرف 1700ارب روپے ہے؟میرا سوال سن کر وہ افسر بھی ہکا بکا رہ گیا۔قصہ مختصر یہ ہے ہمارے عہد کے ’’آدمی ‘‘ نے سونامی کی جوا صطلاح استعمال کی تھی اس کا مطلب تو اب سمجھ میں آیا کہ اس سے مُراد دراصل قرضوں کا سونامی تھا اور وہ آگیا ہے۔

تازہ ترین