• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن کا میلہ آج سےسج رہاہے۔متحدہ عرب امارات کے تین میدان دبئی،شارجہ،ابوظہبی افتتاحی تقریب سمیت پی ایس ایل میچوں کی میزبانی کریں گے۔جبکہ کراچی میں فائنل ہوگا۔کراچی پانچ اور لاہور تین میچوں کی میزبانی کرےگا۔پاکستان سپر لیگ ، تین سال میںپاکستان کرکٹ کا بڑابرانڈ بن کر سامنے آیا ہے۔آئی پی ایل کے بعد پی ایس ایل دنیا کی سب سے کامیاب لیگ ہے۔پاکستان سپر لیگ ہر سال چار سے پانچ ہفتے تک ہوتی ہے لیکن اس ٹورنامنٹ کی ایک فرنچائز ایسی ہے جس نے پورے سال پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے اپنے آپ کو مصروف ر کھا ہوا ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنے آپ کو منوایا ۔لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ کے وہ ٹیم ہے جس نے ابتدائی تین سال آخری نمبر حاصل کیا ۔اس بار لاہور قلندر ز اسی مشن کے ساتھ پاکستان سپر لیگ میں شرکت کررہی ہے کہ جیت ہار سے قطع نظر ٹورنامنٹ کے ذریعے پاکستان کے امیج کو بڑھایا جائے ۔لاہور قلندرز کے سی ای او رانا عاطف اپنے قریبی لوگوں میں مسٹر نو پرابلم کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔رانا عاطف کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی کارکردگی کسی بھیانک خواب سے کم نہیں رہی۔ یہ کارکردگی نہ صرف ان کی بلکہ پورے ملک کی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ سارا سال محنت کی،لیہ سے لے کر کشمیر تک ٹیلنٹ تلاش کیا، ان کا کیمپ لگایا۔ ان کرکٹرز کو آسٹریلیا بھیجا۔

انضمام الحق اور شعیب اختر کو کیمپ میں بلایا جبکہ عاقب جاوید جیسے تجربہ کار کوچ کو بھی تعینات کیا۔پی ایس ایل میں خراب کارکردگی کے باوجود ہم نے جیو کی مدد سے 365دن اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اپنے مشن کی تکمیل کی تین سال میں ہم نے اپنی جیب سے تیس لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی۔لاہور قلندرز نے پی ایس ایل کو بڑا برانڈ بنانے کی کوشش کی۔جیو اور لاہور قلندرز کے اشتراک سے ہم نے ایسے کام کئے جس کی دوسری فرنچائزوں نے تقلید کی۔کٹ لانچنگ،انتھم لانچنگ ہمارے ہی آئیڈیاز تھے۔لاہور قلندرز کی اکیڈمی نے پورے سال کام کیا۔گلگت بلتستان،کشمیر،کے پی کے اور پنجاب میں ہمارے ٹرائلز میں پانچ لاکھ بچوں نے شرکت کی۔ہم نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔اگلےسال ہمارا یہ پروگرام سندھ اور بلوچستان میں بھی جائے گا۔کرکٹ سے ہماری محبت ہی ہے کہ ہم نے کرکٹ سے متعلق اہم معاملات ٹیم انتظامیہ پر چھوڑ رکھے ہیں اور کبھی بھی ان میں مداخلت نہیں کی۔ اس فرنچائز کرکٹ میں آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا ضابطہ اخلاق موجود ہے کہ ٹیم مالکان ٹیم میٹنگز میں شامل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کی ٹیم کھلاڑیوں کے کمروں تک رسائی ہوتی ہے، لہذا وہ مالک ہونے کے ناتے اس پر عمل کرتے ہیں۔ وہ ٹیم میٹنگز کا حصہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو جس کا کام ہے وہ اسی کو ساجھے۔ وہ لاہور قلندر کی مایوس کن کارکردگی پر کسی پر انگلی اٹھا کر الزام عائد کرنا نہیں چاہتے۔ یہ ان کے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ٹیم اچھا کھیلنے میں ناکام رہی ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہیں۔رانا عاطف نے ٹیم کی ٹورنامنٹ میں خراب کارکردگی پر اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ ٹیم میں اندرونی اختلافات ہیں۔جب برینڈن کپتان تھے تو ہر کوئی کپتان برینڈن مکلم پر اعتماد کرتا ہے کیونکہ وہ بہت بڑے کرکٹر ہیں اور ان کی ٹیم کے ساتھ وابستگی اور لگاؤ سے کسی کو بھی انکار نہیں۔عمراکمل کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹیم سے الگ نہیں کیا گیا۔ عمراکمل کی کارکردگی کو وہ اس انداز سے دیکھتے ہیں کہ وہ آؤٹ آف فارم تھے لہٰذا وہ عمراکمل پر کبھی بھی تنقید یا الزام عائد نہیں کریں گے۔ عمراکمل کو بینچ پر بیٹھا کر ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی تھی اسی لیے انہیں میدان میں نہیں لایا گیا۔ہم زندہ دلانِ لاہور کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اپنے احساسات چھپانے کے حق میں نہیں ہیں۔میں خود کو لاہور قلندر کا مالک نہیں، پرستار سمجھتا ہوں اور جو کچھ بھی وہ میدان میں کرتے ہیں اس کا مقصد ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔

لاہور قلندرز نےپاکستان کرکٹ کو فخر زمان اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کھلاڑی دیئے۔پی ڈی پی سے محمد عرفان جونیئر،عثمان قادر،سلمان ارشاد،سہیل اختر،حارث روف،سیف بدر،غلام مدثر اور روحیل اصغر جیسے کھلاڑیوں کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔مجھے امید ہے کہ تین چار سال میں پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں کھلاڑیوں کا بڑا حصہ قلندرز کے کھلاڑیوں کا ہوگا۔اس مشن کی تکمیل میں ہم نے پاکستانی معیشیت کو مضبوط کیا پی ڈی پی کے دوران ملک کے جس علاقے میں گئے وہاں کی معیشیت میں یقینی بہتری آئی ہوگی۔ گذشتہ سال پردیسی کے نام سے بیرون ملک مقیم پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹیم تیار کی اب منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ اگلے سال ڈربن اور نیپال جاکر ٹیمیں بنائیں اور ان ٹیموں کو پاکستان بلاکر میچ کر ائیں گے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے۔آخری نمبر پر آکر بھی مایوس نہیں ہیں،ٹیم کے مالک رانا فواد کا کہنا ہے کہ جب میرے بھائی نے ٹیم کا نام قلندر تجویز کیا تو مجھے اس میں اپنی والدہ کی یاد محسوس ہوئی۔ پھر میں نے اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے قلندر کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ برصغیر میں لاہور اور دہلی دو ایسے شہر ہیں جہاں بادشاہوں صوفیاؤں اور اولیائے کرام کا گزر ہوا ہے۔اس میں کنیزوں کا بھی ذکر ہے اور غلاموں کا بھی۔ یہ سب کچھ میں لکھتا رہا اور گنگناتا رہا اسی کوشش میں لاہور قلندر کا گانا لکھ دیا۔میں کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرتا ہوں اور جب میچ ہوتے ہیں تو ان میں محو ہوجاتا ہوں۔ مجھے کسی نے بتایا کہ آپ کے بارے میں کمنٹیٹرز یہ کہتے ہیں کہ فواد رانا کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ مالک کی حیثیت سے کس طرح کا انداز اختیار کیا جانا چا ہئے۔

تو یہ بات درست ہے کہ میں یہ بات بھول جاتا ہوں کہ میں کسی ٹیم کا مالک ہوں۔ میری ٹیم مجھ سے کہتی ہے کہ جب آپ خوشی سے ناچتے گاتے ہیں تو ہمیں بھی خوشی ہوتی ہے اور حوصلہ بڑھتا ہے۔پاکستان سپر لیگ میں اس بار بھی چھ ٹیمیں حصہ لیں گی لیکن شائقین کرکٹ میں سب سے مقبول ٹیم لاہور قلندرز کے پرستار سمجھتے ہیں کہ اس ٹیم کا برا وقت گذر گیا ہے اور یہ ٹیم اب بلندیوں کی جانب گامزن ہوگی۔پاکستان سپر لیگ کا جوش وخروش جتنا میدان میں کھلاڑیوں کے درمیان ہے اس سے کہیں زیادہ میدان سے باہر ان ٹیموں کے شائقین میں بھی دکھائی دیتا ہے۔یہی جنون اس ٹورنامنٹ کی مقبولیت ہے۔

majidbhatti@janggroup.com.pk

تازہ ترین
تازہ ترین