• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رانا غلام قادر، اسلام آباد

قومی سیاست کا منظرنامہ تلخی کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلے پانچ ماہ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کی تقرری پر تنائو رہا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسپیکر اسد قیصر نے کردار ادا کیا اور وزیراعظم عمران خان کو قائل کر لیا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنا دیا جائے۔ یہ ڈیڈلاک ختم ہونے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے خیرمقدمی کلمات ادا کئے گئے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ کی تشکیل کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا اور ان کے چیئرمینوں کے بھی الیکشن ہو گئے ہیں۔ اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے قومی اسمبلی میں قانون سازی کا عمل چھ ماہ تک رکا رہا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ مفاہمت عارضی ثابت ہوئی اور پی ٹی آئی کے رہنما اور پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کی گرفتاری کے بعد اچانک حکومت نے توپوں کا رخ شہباز شریف کی جانب کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان علیم خان کی گرفتاری سے خاصے اپ سیٹ ہوئے ہیں اور اپنے رفقاء کی محفل میں انہوں نے چیئرمین نیب کے بارے خاصے سخت ریمارکس دیئے۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ نیب نے محض توازن رکھنے کیلئے علیم خان کو گرفتار کیا ہے جبکہ نیب کا موقف ہے کہ ٹھوش شواہدکی بنیاد پر علیم خان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ علیم خان کی گرفتاری سے وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ علیم خان کی گرفتاری کے واقعہ کے بعد وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے پارٹی قیادت کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے فیصلہ سے یوٹرن لے لیا جائے اور انہیں اس عہدہ سے ہٹانے کیلئے مہم چلائی جائے۔ اس سے اگلے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اس ایشو پر غور کیا گیا اور کابینہ کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ شہباز شریف پی اے سی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیں۔ اس کے ساتھ ہی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد بیان داغ دیا کہ شہباز شریف بطور چیئرمین پی اے سی کسی صورت قبول نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق حکمران جماعت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی کے عہدہ سے فارغ کر دیا جائے۔ حکومت نے شہباز شریف کو پہلا آپشن یہ دینا ہے کہ وہ خود اس عہدہ سے مستعفی ہو جائیں۔ پلان بی یہ ہے کہ پی اے سی کے ممبران کی اکثریت اسپیکر کو یہ لکھ کر دیدے گی کہ ہمیں شہباز شریف بطور چیئرمین قبول نہیں ہے اس طرح عدم اعتماد ہوجائے گا اورا سپیکر انہیں اس عہدے سے ہٹا دیں گے رولز میں چیئرمین کمیٹی کو تبدیل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ ایسی صورت میں بھی شہباز شریف خود مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔ حکومت کا موقف ہے کہ شہباز شریف پی اے سی کے آفس کو کرپشن کیسز میں ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کو ہٹانے کی صورت میں حکومتی امیدوار فخر امام ہوں گے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اب 18 فروری سے شروع ہو رہا ہے محاذ آرائی کے اس تلخ میں یہ سیشن دھواں دھار ثابت ہوگا۔

اپوزیشن کے اب تک حکومت کے خلاف متحرک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بظاہر مل کر چل رہے ہیں لیکن دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ شکوہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی وجہ سے اسے شکست ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے صدر مملکت اور وزیراعظم کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں دیا۔ پنجاب میں بھی حمزہ شہباز نے کوشش کی تھی کہ پیپلز پارٹی ساتھ مل جائے تو وہ حکومت سازی کیلئے سنجیدہ کوشش کریں مگر پیپلز پارٹی نے ساتھ نہیں دیا۔ ان حالات میں نواز شریف نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو ایک سال کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ معاشی حالات ایسے ہیں کہ حکومت کو مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے اس طرح حکومت اپنے بوجھ سے خود گر جائے گی۔ اس دوران منی لانڈرنگ کیس آگے بڑھتا گیا اور اب آصف علی زرداری دبائو میں آئے تو پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کا عندیہ دیدیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے سے انکار کر دیا۔ چیئرمین سینٹ کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب یہ شبہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے۔ عوامی حلقوں میں ڈیل کا تاثر نواز شریف اور مریم نواز جارحانہ سیاسی مہم جوئی ترک کرنے کے رویہ سے ابھرا۔ شہباز شریف بیان بازی میں پہلے ہی محتاط ہیں۔ شیخ رشید کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ وزیراعظم سے شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنوانے کا غلط فیصلہ کروایا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نواز شریف اور شہباز شریف سے کسی بھی ڈیل کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف برادران کی ڈیل حکومت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہو رہی ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نیب کیسز ہیں۔ نیب ایکٹ کے تحت پلی بارگین ہوسکتی ہے جس کی منظوری نیب کورٹ دیتی ہے۔ جب دونوں بھائیوں نے پلی بارگین کی درخواست ہی نہیں دی بلکہ نواز شریف کو تو سزا بھی ہوچکی ہے اور وہ اپیل میں ہیں تو پلی بارگین کا راستہ عملاً بند ہوچکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو 6 ماہ ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک حکومت معاشی طور پر سنبھل نہیں سکی۔سٹاک مارکیٹ میں تھوڑی سے بہتری آئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ 37000 پوائنٹس تک گر گئی تھی جو اب 40 ہزار سے اوپر آگئی ہے۔ حکومت جلد ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے والی ہے۔ اس سے معیشت میں استحکام آئے گا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان رواں ہفتے پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں توقع ہے کہ وہ کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کریں گے۔ ابھی تک موجودہ حکومت کا سارا زور دوست ملکوں سے ادھار لینے پر رہا ہے اگرچہ حکمران جماعت مبارکبادیں وصول کر رہی ہے لیکن عملی طور پر تو بہرحال قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی خزانے کی حالت اچھی نہیں ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام پر کٹ لگ چکا ہے۔ مینٹی نینس گرانٹس تک تاخیر سے ریلیز ہو رہی ہیں۔ ایف بی آر کو ریونیو کی وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور شارٹ فال 180 ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔ ان حالات میں حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کیلئے مالیاتی گنجائش دستیاب نہیں ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے پر عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ عوامی ردعمل اس قدر شدید تھا کہ وزیراعظم نے گیس کی اووربلنگ کی انکوائری کا حکم دیدیا حالانکہ بات اووربلنگ کی نہیں ہے، محکمہ سوئی گیس نے ٹیرف میں اضافے کی تجویز ای سی سی کو دی۔ کابینہ نے منظوری دی۔ ایشو یہ ہے کہ گیس ٹیرف کا سیلپ سسٹم غیر منصفانہ ہے۔ صارف جب زیادہ گیس استعمال کرے تو اس پر آخری سیلپ کا مکمل اطلاق کیا جاتا ہے حالانکہ ہر سیلپ کا الگ اطلاق ہونا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عام شہری کا بل اوسطاً 20 سے 25 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ عمران خان سے ریلیف کی توقعات لگانے والی عوام کو اس اقدام سے شدید دھچکا لگا ہے اور اس پر وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کا یہ کہنا کہ گیزر کا استعمال لگژری ہے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے دوسرا ایسو حج سبسڈی کا ہے۔ پچھلے سال سرکاری سکیم کے تحت حج اخراجات دو لاکھ 80 ہزار تھے جنہیں بڑھا کر 4 لاکھ 36 ہزار روپے کر دیا گیا۔ ایک لاکھ 56 ہزار روپے کا اضافہ بہرحال بہت زیادہ ہے جس کا مذہبی حلقوں میں شدید منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکومت تسلیم کرے یا نہ کرے بہرحال مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی شدید مالی دبائو کا شکار ہے۔ وزراء کی دلیلوں سے شہریوںکی مشکلات کم نہیں ہوسکتیں بلکہ اسے پی ٹی آئی کا مقبولیت کا گراف متاثر ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے نوجوانوں کو روزگار اور بے گھروں کو مکان دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کئی ٹاسک فورسز بنائی ہیں۔ اب عملی اقدامات کا وقت ہے۔ عمران خان کیلئے سب سے پہلا چیلنج معیشت کی بحالی ہے تمام ثمرات اس سے بند ہوئے ہیں۔ معیشت بحال ہوگی تو حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین