• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پرائزبونڈ کے انعام سے ملنے والی رقم سے ٹیکس ادا کر سکتے ہیں؟

تفہیم المسائل

انعامی رقم ٹیکس کی مد میں اداکرنا

سوال: میں نے پڑھا تھا کہ حکومت کا عوام پر غیر ضروری ٹیکس لگانا حرام ہے اور عوام کا ان ٹیکس سے بچنے کے لیے حیلے بہانے کرنا درست ہے، اگر کوئی ٹیکسیشن کا ماہر ان کو ظلم قرار دے توآج کل اس ظالمانہ ٹیکس سے بچنا ناممکن ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم پرائزبونڈ کے انعام سے ملنے والی رقم سے ٹیکس ادا کر سکتے ہیں؟ کیونکہ پرائزبونڈ حرام ہیں تو کیا ہم اگر خود پرائزبونڈ کی انعامی رقم استعمال نہ کریں بلکہ حکومت سے ہی لے کرحکومت کو ہی ٹیکس کی مد میں ادا کر دیں تو کیا ایسا کر سکتے ہیں؟(عبدالرؤف)

جواب: آپ کا یہ نظریہ درست نہیں کہ پرائز بانڈ حرام ہیں، اس لیے اُن پر حاصل ہونے والا انعام ٹیکس کی مَد میں دینا چاہیے ۔ انعامی بانڈز کی خرید وفروخت اور ان پر ملنے والاانعام جائز ہے، بانڈ پر درج قیمت پر خرید وفروخت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ اس کی انعامی رقم کے جواز پر علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے علماء اہلسنت وجماعت کے نزدیک یہ انعامی رقم لینا جائز ہے،اس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔یہ اختلاف فقہی دلائل کی بنیاد پر ہے، یہ مسلکی نوعیت کا اصولی یااعتقادی اختلاف نہیں ہے۔ ہر دور کے نئے پیش آنے والے مسائل ’’مجتہَدفیہ‘‘ہوتے ہیں ،یعنی جن پراُس عہد کے اہلِ فتویٰ اور اہلِ علم کو شرعی دلائل کی روشنی میں جواز یا عدم ِ جواز کا حکم لگانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات علماء کی فقہی آراء اِن کے بارے میں مختلف ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں عام مسلمانوں کو میر امشورہ یہ ہوتا ہے کہ جن علماء کی فقاہت ، اجتہادی اہلیت اور علمی دیانت پر انہیں زیادہ اعتماد ہے، اُن کی رائے پر عمل کریں۔لیکن یہ ترجیح دین داری اور آخرت کی جوابدہی کی بنیاد پر ہونی چاہئے، نہ کہ محض خواہشِ نفس کی اِتّباع کی جائے۔ ان بانڈز کا اجراء حکومتِ پاکستان کرتی ہے، بینک نہیں کرتے ،وہ صرف ان کی خریدوفرخت کے لئے ایجنٹ کا کام کرتے ہیں، اِس میں کوئی سودی معاہدہ بھی شامل نہیں ہے ، نہ مشروط اور نہ معہود۔یہ اختلاف ربوٰ کی حرمت میں نہیں ہے، کیونکہ ربوٰ کی حُرمت تو قطعی ہے،بلکہ اس امر میں ہے کہ انعامی بانڈز پر دیا جانا والا انعام سود ہے یا نہیں ۔جن علماء نے اسے حرام قرار دیا ، انہوں نے اسے سود اورقمار کہا ہے ۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ فتویٰ دلائل کی بنیاد پر درست نہیں ہے۔اس مسئلے پر تفہیم المسائل کی جلد : چہارم میں ہم لکھ چکے ہیں اور اگر کسی کو مزید تفصیلی دلائل سے آگہی مطلوب ہو تو علّامہ غلام رسول سعیدی کی شرح صحیح مسلم ، علّامہ مفتی وقار الدینؒ کی وقار الفتاویٰ اور مفتی رفیق حسنی کی رفیق الفقہاء کا مطالعہ فرمائیں ۔ہم اس پر ایک بار پھر مُدلّل ومُفصّل موقف تحریر کریں گے ،لیکن اخبارات کے کالم اس کے مُتحمل نہیں ہوسکتے۔

تازہ ترین