• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کا انداز اپنا اپنا ہوتا ہے۔ شاید اس کا تعلق افتاد طبع سے ہے اور افتاد طبع ہر کسی کی الگ الگ ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اربوں انسان پیدا کئے ہیں اور ہر انسان کی سوچ، مزاج، میلان اور مقدر الگ الگ بنائے لیکن آزمائش ہر ایک کے لئے رکھی ہے۔ آزمائش انسانوں کی بھی ہوتی ہے اور قوموں کی بھی۔ قرآن مجید میں بار بار آزمائش کا ذکر آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آزمائش مالک حقیقی کا پسندیدہ فیصلہ ہے۔ جو پیدا کرتا، پالتا اور زندگی کی نعمتیں عطا کرتا ہے وہ اپنی نعمتوں اور عنایات کا حساب بھی مانگتا اور آزمائش بھی کرتا ہے۔ کس قدر واضح اور ڈرانے والے الفاظ ہیں قرآن حکیم کے کہ ’’لوگوں نے کیا سمجھ رکھا ہےکہ ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں‘‘ (سورۃ 29 آیات 2تا3)۔ ’’مگر انسان کا یہ حال ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا اور جب وہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق تنگ کردیتا ہے وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا‘‘ (سورۃ 89آیات 15تا16)۔

یہ شاید میری افتاد طبع ہے جو مجھے یہ سوچنے پہ مائل کرتی ہے کہ وطن عزیز میں نہ صرف کچھ بڑے بڑے سیاستدان اور لیڈران آزمائش کے شکنجے میں کسے جا رہے ہیں بلکہ پاکستانی قوم بھی آزمائش کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ مطلب یہ کہ صرف میاں نواز شریف ہی آزمائش کے کٹہرے میں کھڑے نظر نہیں آتے بلکہ خود عمران خان اور شاید پوری قوم بھی آزمائش کی عدالت میں کھڑی محسوس ہوتی ہے ۔ میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے۔ یہ اعزاز ان سے قبل کسی کو نصیب نہ ہوا۔ جس نے یہ نعمتیں عطا کیں اور قوم کی امانتیں سپرد کیں آج وہی خالق حقیقی عطا کردہ نعمتوں اور امانتوں کا حساب لے رہا ہے۔ یاد رکھیے اقتدار، دولت، شہرت، عزت، طاقت وغیرہ آزمائش ہیں اور امانت بھی۔ امانت ان معنوں میں کہ وہ ابدی ہیں نہ ہمیشہ رہتی ہیں۔ ان امانتوں کا صحیح اور جائز استعمال ہوا تو انسان سرخرو ہوا ورنہ ناکام۔ اس لحاظ سے اقتدار ڈبل آزمائش ہوتی ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ اقتدار دے کر آزماتے ہیں تو دوسری طرف عوام۔ اللہ پاک کا آزمانے، جانچنے اور پرکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے اور عوام کا اپنا۔ ضروری نہیں کہ جو حاکم عوام کے معیار پر پورا اترے وہ عدالت الٰہی میں بھی سرخرو ہو کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نیتوں اور اعمال کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔

آپ پوچھ سکتے ہیں میاں صاحب تو طویل عرصے تک صوبے اور مرکز میں اقتدار پر متمکن ہوئے۔ ان کی آزمائش تو سمجھ میں آتی ہے لیکن عمران خان نے تو بمشکل چھ سات ماہ قبل عنان اقتدار سنبھالی ہے۔ اللہ پاک کی آزمائش کا وقت تو صرف اللہ پاک ہی جانتے ہیں۔ اللہ پاک آزماتے ضرور ہیں لیکن کب؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ عوامی آزمائش اقتدار میں آتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عمران خان الیکشن مہم کے دوران جلسوں سے خطاب کے دوران ببانگ دہل کہتے رہے کہ کیا وزیراعظم بھیک مانگے گا؟ عمران خان مر جائے گا لیکن بھیک نہیں مانگے گا۔ مجھے شرم آتی ہے کہ ہمارے ملک کے حکمران دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اور بھیک مانگتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے مانگتے ہیں۔ جو قرضے دیتا ہے وہ آزادی بھی لے جاتا ہے۔ اب وہی عمران خان دوست ممالک سے بھیک مانگتا پھررہا ہے اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے جا رہا ہے۔ یہی اس کی آزمائش ہے۔ آزمائش الفاظ کے تقدس کی بھی ہوتی ہے اور فہم و ادراک کی بھی۔ کیا اسے انتخابی جلسوں کے دوران ملک کی معاشی حالت اور در پیش مسائل کا علم نہیں تھا، یا وہ عوامی حمایت کی خاطر خواب دکھاتا رہا؟ اگر اسے واقعی ہی علم نہیں تھا تو پھر وہ سطحی اور سادہ انسان ہے۔ حکمرانی کے لئے جس فہم و ادراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس کی ’’چائے کی پیالی‘‘ نہیں۔ البتہ اب وہ سیکھ جائے اور ان مسائل سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو کر سرخرو ہو جائے تو وہ عوامی آزمائش میں کامیاب ہو جائے گا۔ رہی ربی آزمائش تو اس حوالے سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لاعلمی کے بطن سے نکلے ہوئے دعوے شاید جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتے مگر کم علمی ضرور کہلاتے ہیں۔ قرآن مجید واضح کرتا ہے ’’کہ جب اس کا رب اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تو اسے عزت اور نعمت دیتاہے۔ وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس پر رزق تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔‘‘ (سورۃ 89۔ آیات 15تا16) محرومی کے وقت ایسا سوچنا یا کہنا صریحاً ناشکری ہے۔ آزمائش کو ’’ذلت‘‘ سمجھنا بھی ناشکری ہے۔

ملکی سیاست پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ساری قوم آزمائش اور امتحان سے گزر رہی ہے۔ ہم نے اپنی طویل زندگی میں ایسی پستی اور ایسی سیاست نہیں دیکھی جس کی بنیاد ہی جھوٹ، نفرت، گالم گلوچ اور تکبر پر ہو۔ صبح سے لے کر رات تک تماشا ہوتا ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے جب کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے 72برس قبل پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک نعمت عطا کی تھی لیکن ہماری قیادتوں نےعوام کو اس نعمت کے پھل سے محروم کردیا۔ قوم کا کردار کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت قومی وقار کے حوالے سے پست ترین مقام تک پہنچ چکی ہے۔ نعمت ملتی ہے تو اس کا حساب بھی مانگا جاتا ہے۔ یہی آزمائش کا اصول ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی قیادت اور قوم دونوں آزمائش کے کٹہرے میں کھڑے کئے جا چکے ہیں؟ رب کسی کو ذلیل نہیں کرتا، اعمال ذلیل کرتے ہیں۔

تازہ ترین