• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا ہوتا ہے آپ کسی وقت بہت ہی تنہائی آمیز اداسی میں گھر جاتے ہیں۔ روٹین کے ناگوار ملبوں کو دیکھتے اور برداشت کرتے کرتے خود کو کیکر کا وہ درخت محسوس کرنے لگتے ہیں، جس کے کانٹے بھی جھڑ چکے ہوں، یعنی آپ اتنے ساکت، اتنے منجمد اور اتنے منتشر ہو جائیں کہ زندگی کی معنویت کا احساس بھی نہ رہے۔ اچانک آپ کو اس عظیم کائناتی نظام کی کوئی شیریں ذائقہ پر بےساختہ قسم کی بیداری میں لے آتی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ موت کا نہیں ابدیت کا حصہ ہیں۔ آپ کسی ایسی وادی کو سدھارتے ہیں، جہاں قدرت اپنی لامحدود نرماہت اور حیران کن حسن سے آپ کا استقبال کرتی ہے۔رب عظیم کے کسی نرم اور حسین منظر میں گم ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسی کیفیت آپ پر گزرتی ہے جیسے فرشتوں کے پروں سے آنے والی ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے آپ کے رخساروں کو چھو رہے ہوں۔ جیسے آپ ہر قسم کی آپا دھاپی، ہر قسم کے دلدر اور ہر قسم کی آلائش سے آزاد ہو کے قدرت کی محفوظ آغوش میں چلے گئے ہوں اور اب آپ کو کسی شے کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنا بھی منظور نہیں ہوتا۔حضرت خوشی محمد ناظر کی ایک نظم ’’جوگی‘‘ پڑھ کے شاید ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ اسی عالم کو شیئر کریں۔ وہ نظم جو آج ساٹھ، ستر برس کی طویل مسافت طے کرنے والے تمام مسافروں نے اپنے بچپن کی ابتدائی جماعتوں میں کبھی نہ کبھی ضرور پڑھی ہو گی، دوبارہ مطالعہ کریں اور دیکھیں قدرت کی محفوظ ترین آغوش آپ کی منتظر ہے کہ نہیں، اب نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں

’’کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا

سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور طہور ہوا

مستانہ ہوائے گلشن تھی جانانہ ادائے گلبن تھی

ہر وادی وادیٔ ایمن تھی ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تھا دل کش منظر باغ جہاں اور چال صبا کی مستانہ

اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ

چیلوں نے جھنڈے گاڑھے تھے پربت پر چھائونی چھائی تھی

تھے جیسے ڈیرے بادل کے کہرے نے قنات لگائی تھی

یاں برف کے تودے گلتے تھے چاندنی کے فوارے چلتے تھے

چشمے سیماب اگلتے تھے نالوں نے دھوم مچائی تھی

اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا

تھی راکھ جنوں میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی

تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیرہن تن پر

تھی ایک لنگوٹی زیب کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی

سب خلق خدا سے بیگانہ وہ مست قلندر دیوانہ

بیٹھا تھا جوگی مستانہ آنکھوں میں مستی چھائی تھی

جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا

تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا

کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لئے آ کے ستاتے ہو؟

ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی تم جال میں ان کو پھنساتے ہو

کوئی جھگڑا دال چپاتی کا کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا

کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا تم ہوم کو سنانے آتے ہو

ہم حرص و ہوا کو چھوڑ چکے اس نگری سے منہ موڑ چکے

ہم جو زنجیریں توڑ چکے تم لا کے وہی پہناتے ہو

تم پوجا کرتے ہو دھن کی ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی

ہم جوت لگاتے ہیں من کی تم اس کو آگے بجھاتے ہو

سنسار سے یاں مکھ پھیرا ہے من میں ساجن کا ڈیرا ہے

یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟

یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا

سر اس کے جھکا کر چرنوں پر جوگی کو ہم نے جواب دیا

ہیں ہم پردیسی سیلانی یوں آنکھ نہ ہم سے چرا جوگی

ہم آئے ہیں تیرے درشن کو چتون پر میل نہ لا جوگی

آبادی سے منہ پھیرا کیوں جنگل میں کیا ہے ڈیرا کیوں؟

ہر محفل میں ہر منزل میں ہر دل میں ہے نور خدا جوگی!

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

پھر جوگی جی بیدار ہوئے اس چھیڑ نے اتنا کام کیا

پھر عشق کے اس متوالے نے یہ وحدت کا اک جام دیا

ان چکنی جپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا!

جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا!

ؕ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

ہے شہر میں شورش نفسانی جنگل میں ہے جلوہ روحانی

ہے نگری ڈگری کثرت کی بن وحدت کا دریا بابا!

ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں

راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں پرجا کی نہیں پروا بابا!

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تن من کو دھن میں لگاتے ہو ہر نام کو دل سے بھلاتے ہو

ماٹی میں لعل گنواتے ہو تم بندہ حرص و ہوا بابا!

دھن دولت آنی جانی ہے یہ دنیا رام کہانی ہے

یہ عالم عالم فانی ہے باقی ہے ذات خدا بابا!

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین