• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طارق ملک پروفیسر فتح محمد ملک کے فرزند ہیں، پروفیسر طاہر ملک کے بھائی ہیں، کچھ عرصہ پہلے طارق ملک نادرا کے چیئرمین تھے پھر ایک ایسی حکومت آ گئی جس کے لیڈر نے الیکشن کے روز پورے دن کی پولنگ دیکھنے کے بعد رات کو ساڑھے دس بجے پتہ نہیں کس سے کہا تھا کہ ’’مجھے اکثربت چاہئے‘‘۔ پیغام پہنچ گیا، اکثریت مل گئی مگر کئی سوالات اٹھ گئے۔ سب سے بڑا سوال دھاندلی کا تھا، یہ دھاندلی ووٹوں کی تصدیق سے بےنقاب ہوسکتی تھی اور یہ کام نادرا کے ذریعے ممکن تھا، حکومت ڈر گئی، اسے یہ خوف تھا کہ اگر طارق ملک چیئرمین نادرا رہے تو پھر پورا کھیل ننگا ہوجائے گا، کہیں یہ فیصلہ ہوا کہ اگر حکومت بےعزتی سے بچنا چاہتی ہے، دھاندلی پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے تو اس کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ طارق ملک کو راستے سے ہٹایا جائے کیونکہ طارق ملک دیانتدار ہے، وہ بدعنوانی کے کسی کھیل کا حصہ نہیں بنے گا۔ بس پھر پوری حکومت طارق ملک کے پیچھے پڑ گئی، اس وقت کے وزیر داخلہ نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو عام طور پر مہذب معاشروں میں زیب نہیں دیتا۔ طارق ملک پر مقدمہ قائم کردیا گیا، پولیس اور ایف آئی اے کو پیچھے لگایا گیا، وزیر داخلہ کی تھپکی تھی، اس لئے ان اداروں کے اہلکاروں نے طارق ملک کے اسکول جانے والے بچوں کو بھی تنگ کیا، طارق ملک کے گھر کے گرد خوف کا حصار بنایا گیا۔ جس گھر سے علم کی خوشبو آتی تھی اس کے گرد خطرات کھڑے کردئیے گئے۔ طارق ملک کو سابق حکومت نے اتنا مجبور کیا کہ اسے ملک سے جانا پڑا۔ وہ اپنی پیاری دھرتی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا مگر دھرتی پر ظلم رقص کررہا تھا، طارق ملک نے آنسوئوں کے ساتھ ملک چھوڑا،اور پھر بیرونی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

خواتین و حضرات! مجھے یہ پرانا قصہ اس لئے یاد آرہا ہے کہ عدالتوں نے اسے تازہ کردیا ہے۔ چند روز پہلے طارق ملک پر جھوٹ اور انتقام کی بنیاد پر بننے والا مقدمہ عدالت نے ختم کر دیا۔ عدالت ہی نے طارق ملک کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ میرے سامنے جب بھی طارق ملک کا نام آتا ہے تو مجھے رونا آتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے ایسے ہیرے کی قدر کیوں نہیں کی؟ کیوں ایک ذہین ترین آدمی کو تنگ کیا گیا۔ طارق ملک پروفیسر فتح محمد ملک کا صاحبزادہ ہے، دنیائے شعر و ادب پروفیسر فتح محمد ملک سے واقف ہے، علمی و صحافتی دنیا پروفیسر صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اقبال شناسی کا شوق رکھنے والے تمام لوگ ملک صاحب کے ہاتھ چومتے ہیں۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کی علم و ادب کے لئے بہت خدمات ہیں، چکوال سے کون واقف نہیں، چکوال نے دھرتی پر قربان ہونے والے بچوں کو جنم دیا، اس علاقے کے کئی بہادر سپوت وطن کی محبت میں بہت لڑے۔

آپ کو حیرت ہو گی کہ طارق ملک کا نام دنیا کی سو با اثر ترین شخصیات میں شامل ہے۔ یہ نام اس سال شامل نہیں ہوا بلکہ گزشتہ تین برسوں سے ورلڈ آئیڈ نٹیسٹی نیٹ ورک نے طارق ملک کا نام دنیا کے ایسے سو افراد میں شامل کر رکھا ہے جو بااثر ترین ہیں۔ طارق ملک اقوام متحدہ میں چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ہیں، حال ہی میں انہوں نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی سر پرستی کرتے ہوئے 180دنوں میں ملاوی (افریقہ) کے شہریوں کی بائیو میٹرک رجسٹریشن کا کام مکمل کیا اور وہاں اسمارٹ کارڈ کا نظام متعارف کروایا، جب وہ نادرا چھوڑ کر، وطن چھوڑ کر گیا تو اسے عالمی ترقیاتی بینک امریکہ نے ’’ترقی کے لئے شناخت‘‘ نامی پروگرام کی بنیاد رکھنے کی ذمہ داری سونپی پھر اس کا نام، کام کے بعد دس بہترین ٹیکنیکل ایکسپرٹس میں شامل کیا گیا۔ ورلڈ بینک دنیا بھر کے لئے طارق ملک کی مہارت سے استفادہ کرتا ہے، طارق ملک نے دنیا کے سب سے بڑے ملٹی بائیو میٹرک سسٹم کا آغاز کیا۔ دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اسے اپنا رہنما مانتی ہے۔ طارق ملک نے ڈیٹا بیس کے ساتھ ساتھ ’’بگ ڈیٹا کے تجزیہ‘‘ کو پاکستان میں ٹیکس نیٹ میں اضافے، جرم اور بد عنوانی کے مقابلے، سماجی ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے، جمہوریت کی مضبوطی ، بہتر طرز حکمرانی اور غربت میں کمی کے لئے استعمال کیا، جب انہوں نے پاکستان میں 3.5ملین ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کی تو سی این این نے طارق ملک کو ’’مین آن مشن‘‘ کا خطاب دیا۔ اس عظیم پاکستانی نے امریکہ، روس، کینیا، نائیجریا، تنزانیہ، صومالیہ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور ملاوی میں پروجیکٹس کی قیادت کی، اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں کو شفافیت کے ساتھ مقاصد کی تکمیل کا راستہ دکھایا۔ مشی گن اس کی خدمات کو نہیں بھولتا، وہاں ملک صاحب نے آن لائن پراپرٹی ٹیکس کے نظام کو چار چاند لگا دئیے۔ ریاست پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز سے نوازا، اٹلی میں انہیں ’’آئوٹ اسٹینڈنگ اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور ہائیڈل برگ جرمنی سے فارغ التحصیل طارق ملک نے جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ، ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹیشن فورڈ یونیورسٹی امریکہ سے تربیت حاصل کی۔

طارق ملک کے اعزازات اتنے ہیں کہ یہ کالم کم پڑ جائے گا، قصہ مختصر یہ ہے کہ ہمارے اس چکوالی سپوت نے دنیا بھر میں خود کو منوایا، دنیا نے اسے اعزازات سے نوازا مگر ہماری نواز حکومت نے اس پر مقدمہ بنایا، اس ہیرے کو مٹی میں رولنے کی کوشش کی، پتہ نہیں کیوں ہم ہیروں کو مٹی میں رولنا چاہتے ہیں، ہمیں تو چاہئے کہ ہم ایسے افراد کی قدر کریں، ایسے افراد سے کام لیں، جنہیں دنیا مانتی ہو کم از کم انہیں تو مان لینا چاہئے، وطن ایسے افراد پر ناز کرتا ہے مگر وطن میں قائم سیاسی حکومتیں ایسے افراد سے انتقام لیتی ہیں، طارق ملک کے راستے میں افتخار عارف کا یہ شعر چمک رہا ہے کہ؎

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین