• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کا وقار دھجیوں میں، ادارے اس طرح چلائے نہیں جاسکتے

 اسلام آباد (تجزیہ انصار عباسی) قومی احتساب بیورو (نیب) کا وقار دھجیوں میں ، تتر بتر اور بکھر کر رہ گیا ہے۔ موجودہ روپ میں ادراے اس طرح نہیں چلائے جاسکتے۔ دو ہفتوں کے اندر ہی لاہور ہائیکورٹ نے پہلے نیب کا صاف پانی کیس منہدم کیا اور اب آشیانہ کیس ردی میں ڈال دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے یہ پیشرفت کوئی خوشگوار نہیں ہوگی لیکن حکومت جماعت اور اس کے رہنمائوں کو سمجھنے کا صحیح وقت ہے کہ اگر نیب دوسروں سے یہ سلوک کرسکتا ہے تو ایسا ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ سوال صرف وقت کا ہے۔ یہ بھی مناسب ہوگا کہ نیب کو ختم کردیا جائے یا پھر تنظیم نو کی جائے تاکہ اسے ایک موثر انٹی کرپشن ادارہ بنایا جاسکے۔ بجائے اس کے کہ اسے سیاسی انتقامی آلہ کار کے طور پر یا پھرحکومتیں اور سیاسی جماعتیں توڑنے اور بنانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ گزشتہ دو دہائیاں مقدمات ثابت کرنے میں نیب کی ناکامیوں کی گواہ ہیں۔ خصوصاً وہ مقدمات جو سیاست دانوں پر قائم ہوئے۔اس کے بجائے مخصوص مقدمات ایسے بھی ہیں جن میں بارسوخ ملزمان کی دوستانہ استغاثے کے ذریعے مدد کی گئی۔ نیب نے اپنے قیام کے بعد ہی سے درجنوں سیاستدانوں کے خلاف مقدمات بنائے اور ریفرنسز دائر کئے لیکن احتساب عدالتوں سے مشکل ہی سے کسی کو سزا ہوئی۔ احتساب عدالتوں سے جن کو سزائیں ہوئیں وہ عام طور پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے بری ہوگئے۔ یہ صورتحال نہ صرف ٹرائل کورٹس کے معیار پر بہت کچھ کہہ رہی ہے ساتھ ہی نیب کی بدنیتی یا نا اہلیت دکھائی دیتی ہے۔ عموماً نیب کی ’’کامیاب کہانیوں‘‘ کا تعلق پلی بارگین کے مقدمات سے ہے جس میں ملزمان کو اٹھایا اور گرفتار کیا جاتا ہے۔ وہ نیب کی حراست میں رہتے ہیں، لوٹا ہوا پیسہ واپس کرنے کی شرط پر انہیں رہا کردیا جاتا ہے یہ حربے بیورو کریسی میں زیادہ تر جونیئر افسران اور بزنس مین کےساتھ کامیاب رہے۔ تاہم شاذونادر مقدمات میں سیاست دانوں (زیادہ تر غیر معروف) نے یا تو پلی بارگین یا رضاکارانہ یا قانونی طور پر رقوم واپس کیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سیاست میں کوئی بھی نیب کے کئے سے مطمئن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے بھی کئی بار عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ نیب پر کوئی ادارہ جاتی پکڑ نہیں ہے۔ اس کا غلط کاریوں پر کبھی مواخذہ نہیں ہوا جس کا چند گزشتہ نیب سربراہوں نے اعتراف بھی کیا۔ صرف حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ صاف پانی کیس میں یہ بات نوٹ کی کہ اس کیس میں بدنیتی سے کارروائی کی گئی۔ قرار دیا گیا کہ قواعد کی کوئی خلاف ورزی ہوئی اور نہ ہی کرپشن،کمیشن یا کک بیکس کے ملزم پر الزامات ثابت ہوئے۔ یہ نیب میں مقدمہ بنانے والوں کے خلاف فرد جرم سے کم نہیں۔ تاہم لاہورہائی کورٹ کے نیب کے خلاف نوٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔اب شہباز شریف جنہیں چار ماہ قبل آشیانہ اسکینڈل میں نیب نے گرفتار کیا، لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرلی ہے۔ ابھی تفصیلی عدالتی فیصلہ آنا باقی ہے۔ توقع ہے کہ فیصلہ صاف پانی کیس میں فیصلے کی طرح مطالعہ کے لائق ہوگا لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ نیب کی غلط کاریوں کو درست کون کرے گا؟  

تازہ ترین