• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا… راجہ اکبردادخان
وزیراعظم عمران خان کا ایوب خان مرحوم کے دور حکومت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا، ان کا نیک نیتی پر مبنی تجزیہ ہے۔ جس کے دوران وہ اپنی نوعمری کے دور سے گزرے۔ وہ ایوب خان ماڈل کو صرف اس کی اجتماعی اہلیت، سینٹرلائزیشن، کام کرتی بیوروکریسی اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے اچھے پہلوئوں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ ورنہ اگر سٹینو ٹائپنگ کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ اس وقت تقریباً ایک ابھرتے کرکٹر کی حیثیت سے کم از کم ملکی سطح پر اپنا مقام بنا چکے تھے اور چند سال بعد انہوں نے پاکستان کیلئے کھیلنا شروع کردیا تھا۔رشوت کم تھی، ہر کوئی اپنے فرائض سے دیانتداری سے نمٹتا نظر آتا، بیرونی دنیا میں پاکستان کو ایک اہم ملک سمجھا جاتا تھا۔ مہنگائی کی سونامی جو اس ملک کو پیچھلے کئی سال سے گھیرے ہوئے ہے کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ ملک 1965ء کی جنگ کے بعد بھی مالی طور پر اتنا پریشان نہ ہوا جتنا کہ آج ہے۔ ’’بنیادی جمہوریت‘‘ آج کے بکھرے ہوئے مقامی نظام حکومت کی نسبت زیادہ ٹھہرائو پیدا کرنیوالا نظام جو اگرچہ ہر کسی کی توقع پر پورا نہیں اتر رہا تھا مگر ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس کے مقامی اور قابل رسائی ہونے کی وجہ سے اس کا مداح بھی تھا۔ دفاع مضبوط تھا، بھی ایک وجہ ہے جو تمام سٹرکچر کی مدد کررہا تھا، ان تمام ریاستی حوالوں سے ملک قابل فخر تھا جس کی جھلکیاں وزیراعظم کے ذہن میں ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایوب خان حکومت کے درمیانی عرصہ سے ہی مشرقی پاکستان سے علیحدگی کی مضبوط آوازیں اٹھنی ہوچکی تھیں۔ سیاسی احتجاجوں کے درمیان جلد ہی مغربی پاکستان کی ون یونٹ (ایک صوبہ کی حیثیت) ختم کردی گئی۔ مختلف ممالک میں ریاستی اکائیاں کمزور کرنیکی چلتی جو تحاریک نظر آرہی ہیں بیشتر ممالک میں ان تحاریک کی پشت پناہی پر اسلام مخالف قوتیں کام کرتی نظر آتی ہیں تاکہ مسلم دنیا کو بالخصوص چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ان ممالک کی بحیثیت ایک متحدہ ملک قوت کو تباہ کردیا جائے۔ ایسا ہی سوڈان میں ہوا اور یہی کھیل نائیجریا اور افریقہ کے کئی دوسرے ممالک میں بھی کھیلا جارہا ہے۔ بجائے اسکے کہ ممالک میں نظام ہائے حکومت کو بہتر اور عوام دوست بنایا جائے مخالف ممالک کی ٹوٹ پھوٹ میں حصے ڈالنے انتشار پسندی کے ثبوت ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سیاست کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں اس پر بحث ہونی چاہئے تھی کہ کیا اب آدھے پاکستان میں چار علیحدہ اکائیوں (صوبوں) کا موجودہ انتظامات کے تحت قائم رہنا مملکت پاکستان کے مفاد میں ہے؟ بھارت کے ساتھ کئی جنگوں اور دیگر اہم اختلافات کی بنا پر خطرات کے بادل ہمہ وقت چھائے رہتےہیں۔ آج جب کہ افواج پاکستان ملکی سرحدوں اور کشمیر میں سیز فائر لائن پر دفاع مملکت میں مصروف ہیں تو جہاں ہمارے دشمنوں کیلئے ایسے حالات ہمیں مزید نقصان پہنچانے کیلئے مددگار بن جاتے ہیں۔ وہاں ہمارے دشمن ہمارے خلاف اندرون ملک دہشت گردیوں میں ملوث ہوکر ہمارے جان و مال کو نقصان پہنچانے شروع کردیتے ہیں۔ ’’ون یونٹ‘‘ کی شکل میں ہم ایسی ملک دشمن سرگرمیوں سے بہتر طریقہ سے نمٹ سکتے ہیں۔ ماضی قریب میں این آر اوز کی پشت پر بننے والی حکومتوں نے جہاں ریاستی نظام حکومت کو نہ صرف داغ دار کردیا وہاں اس طرز عمل سے جوڈیشل نظام کو ایسے نقصان پہنچے کہ ملکی سطح پر پانچ سو کے قریب خاندانوں کو ’’قانون سے بالاتر ہونے کے ریاستی سرٹیفیکٹ مل گئے‘‘ کہ مختلف صوبوں کی کرپٹ حکومتی اشرافیہ آج ’’قانون پروف‘‘ بن کر ملکی نظام کو تابع کئے ہوئے ہے۔ رہی سہی کسر 2013ء کے عام انتخابات میں نکل گئی، جہاں حکومتیں بھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کر دی گئیں۔ جس کے نتیجہ میں پانچ سال میں کئی صوبوں اور مرکز کے معاملات مشکل میں رہے اور یہ سب اس وقت ہوا جب ملک دہشت گردی کی گہری لپیٹ میں تھا۔ جس طرف نظر دوڑائی دشمنان ریاست تباہی اور عدم استحکام پھیلاتے ملے۔افسوسناک واقعات کے بعد بھی ایک مضبوط مرکز نہ ہونے کی وجہ سے کسی طرف سے بھی مرہم پٹی ہوتے نظر نہ آسکی۔ پچھلی ایک دہائی کے اردگرد مقامی سطح کے حکومتی ماڈل میں اتنی تبدیلیاں لائی گئی ہیں جنکی وجہ سے ایک ایوریج فرد کیلئے یہ حساب رکھنا کہ آج کونسانظام زیرعمل ہے ایک مشکل بنی ہوئی ہے اور بدلتے نظام بھی یہی پیغام دیتے ہیں کہ مقامی سطح کی حکومت کے حوالے سے کچھ مختلف سوچنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم یقیناً اقتدار عام لوگوں کے درمیان لاکر ایک کم خرچ نظام عدل و حکومت رائج کرنے کیلئے خواہشمند ہیں۔ ان کا ایجنڈا دیگر کئی اہم ایشوز سے بھی بھرا پڑا ہے انکی حکومت کے پاس اسمبلی میں معقول اکثریت بھی نہیں ہے اور ہر اتحادی جماعت ان سے تعاون کی بھاری قیمت وصول کرنے کے درپہ ہے مشکل میں پھنسا عمران خان حکومت کے اس ٹیسٹ میچ میں سنچری بھی کرے گا اور آٹھ وکٹیں بھی لے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ چیلنجز قبول کرتے ہوئے میچ جیتنے کا عادی ہے، ہماری دیہی آبادی کے بیشتر مسائل کا تعلق مقامی پولیس سٹیشن، مقامی پٹواری اور مقامی ضلع اور تحصیل دفاتر سے ہے۔ آج مقامی سطح پر ان اداروں پر نظر رکھنے کیلئے منتخب عوام سطح کا کوئی انتظام نہیں۔ حکومت کیلئے ضروری ہے کہ ’’بنیادی جمہوریت‘‘ یا اسی طرح کے دیگر ماڈلز جن میں مرکزیت مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کو حاصل ہو پر ایک کمیشن کے ذریعہ مباحثہ ہونا چاہئے تاکہ ملک میں مقامی انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کا ایک عوام دوست نظام بن جائے۔ ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کی پرانی حیت اور ترکیت میں یقیناً تبدیلیوں کی گنجائش ہوسکتی ہے مگر ایک ثابت شدہ کام کرتے نظام کو اس لئے ایک طرف رکھ دینا کہ وہ ایوب خان مرحوم کا دیا ہوا تھا سراسر ناانصافی ہے۔ ملک میں علیحدگی پسند رحجانات سے نمٹنے کیلئے اور عوام کے درمیان باہمی رابطے بڑھانے کیلئے تاکہ ملک میں اتحاد کی سوچیں مزید مضبوط ہوسکیں۔ ون یونٹ بننے سے ریاستی اخراجات میں واضح کمی دیکھنے کو ملے گی اور پورے ملک کے عوام ملکی وسائل کے پول سے یکساں طور پر مستفید ہوسکیں گے ۔ پاکستانی عوام کو ایک ایسا پاکستان چاہئے جہاں ہر کسی کے تمام مسائل مقامی سطح پر حل ہوں جہاں پنچایت کے ذریعہ گائوں اور وارڈز ایشوز حل ہوسکیں، جہاں تھانہ اور کچہری حقیقت میں عوام دوست بن جائیں اور اس ساری تصویر میں بنیادی جمہوریت کا تصور عین درست محسوس ہوتا ہے۔ اللہ مملکت پاکستان پر مہربان رہے۔
تازہ ترین