• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ مجھ پر پل پڑی ہے ۔40 سالہ عملی زندگی میں نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی ہے اور نہ مطمع ِ نظر ۔تحریک انصاف کے لئے دل وجان حاضر کیونکہ تبدیلی کا واحد آسرا ہے۔ اگر میں ڈیفالٹر ہوں تو وزیر اعظم پاکستان بننے کی بنیادی شرط پوری کر چکا ۔ان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس شاخ پرآشیانہ بنانے میں مصروف ہوتی ہے اسی کو ہی کاٹ کے رکھ دیتی ہے ۔ ایک معتبردانشور دوست نے فرمایا” آپ نے قومی رہنماؤں کی شانِ اقدس میں گستاخی کرکے بھڑوں کے چھتے بلکہ بچھوؤ ں کے گھروندے میں انگلی ڈا ل دی۔ اب قائدین اور ہمنوا آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں“میرا جواب تھا ۔ حضور ان قائدین نے ملک و قوم کا جوحال کیا ہے وہ میرے دماغ کو شل کرنے کے لئے کافی ہے ۔
ان قائدین کی خیانت ، نا اہلی اور جھوٹ کو اجاگر کرنا جہاد ہے یہ میرے آقا حضرت محمد کا حکم ہے۔ برائی کو ہاتھ سے روکو اور کمزور ایمان ہے تو دل میں برا جانو۔مقدس طبقہ اور بہی خواہ سن لیں الحمد للہ میرا ایمان کمزور نہیں ہے۔ انشاء اللہ قند کو قند ہی لکھوں گا اور” زہر ہلاہل“ قوم کا مزید مقدر نہیں بن پائے گا۔ جب سے عوام الناس نے قائدین کے خلاف حقارت اورنفرت کا پیغام عام کیا ہے وہ عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا کر چکی ہے ۔ اجزائے ترکیبی عیاری، تجارت، عہد شکنی اور نا اہلی پر مشتمل اور خواب تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کے۔ پراپیگنڈہ ایسا گویا پچھلے 30سال عمران خان مقتدر تھا چنانچہ حساب بھی وہی دے ۔ یوں لگتا ہے جنرل جیلانی نے نواز شریف کی بجائے عمران خان کوگود لیا اورپروان چڑھایا اور پھر ”قومی خدمت “کے لئے جنرل ضیاء الحق کی نیابت میں دے دیا۔مزید 1985سے 2012 تک اندرون وبیرون ملک کھربوں روپے کی ذخیرہ اندوزی گویا عمران خان ہی نے تو کی۔
قائدین تو بد قسمتی سے ننگ دھڑنگ ہیں ہی لیکن داد دیں سرکاری خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے لکھاری اور طبلہ نوازوں کو جو اُن کو خلعتوں میں دیکھ رہے ہیں ۔ایک طرف سرکاری وسائل پر اپنے پرا پیگنڈے کی ایسی فراخ دلی دوسری طرف مخالف سیاسی عقیدہ رکھنے والوں پر عر صہ حیات تنگ۔بحیثیت کالم نویس میری بیخ کنی کا خصوصی اہتمام ہو چکا ۔میں خوش آمدیدکہتا ہوں۔ سگے چچا زاد بھائیوں اور بہنوئی کو پٹوا کر جیل ڈالا مجھے کیوں بخشیں گے ؟ جھوٹ لکھوں، معافی بر سر عام مانگنے کے لئے تیار ۔ تو جیحات کا قائل نہیں زبان کی سختی مزاج کا حصہ اُس پر پیشگی معذرت ۔مقصد دل آزاری نہیں وطن عزیز کا شیرازہ بکھرنے کو ہے ۔میرے دوست پرویز رشید اور ایک لطیفہ گو وزیر جو خود بے شمار دفعہ جسمانی تشدد کا شکار اس لئے رہے کہ اُن کے خیالات حکمرانوں سے نہیں ملتے تھے ۔ کیا اس ”جوڑی“ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ اگر میرے اعمال کا کُھرا عمران خان تک پہنچا نا مقصود ہے تو پھر اس سوال میں کیا قباحت ہے کہ رانا ثناء اللہ کی بے شمار غیرقانونی اورغیر اخلاقی سر گر میاں کیا کسی غیر مرئی طاقت کے زور پر ہیں ؟ یقینا نہیں۔ ویسے بھی کہاں” گنگو تیلی “اور کہاں عزت مآب ۔ برادرم پرویز رشید سے گلا نہیں نظریات نظر یہ پاکستان پر فٹ نہیں بیٹھتے، خدمت مسلم لیگ کی کرنی۔سوچتا ہوں اگر وہ مخالفین کی کردار کشی اور شرفاء کی خوشامد نہ کریں تو اور کون سا ہنر ہے جو اِن کو با عز ت روزگار دے گا۔ حضور جو ”کٹا کٹی “ نکالنا ہے نکال لو۔میں انشا ء ا للہ سلسلہ واربد اعمالیوں اور بد انتظامی کی ہو شربا داستانیں پیش کرنے کا تہیہ کر چکا ہوں ۔اللہ زندگی کے چند سانس اور دے قوم ہکا بکا رہ جائے گی ۔ جب بھی مخا لف خیال کو دبانے کی کوشش کی حکمرانوں نے منہ کی کھائی ۔
1990 میں جب پاکستان واپس آیا تو ٹیکسٹائل کا کاروبار اپنے سرمائے سے شروع کیا ۔ بینک کو چلتے کام میں شریک کیا ۔ نفع بھی کمایا اور نقصان بھی اٹھایا ۔کاروبار میں نفع آیا تو بنک کو کما کر بھی دیااور بدقسمتی سے کاروبار جب بدحالی کا شکار ہوا تواپنا سرمایہ بھی گنوایا اور شراکت داروں کو بھی نقصان پہنچا۔ذات کے لئے قرضہ کبھی لیا نہیں، کمپنی نے ضابطے اور قوانین کے مطابق قرض لیا۔ کسی بنک سے قرضہ معاف نہیں کروایانہ میرے معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے کوئی عدالتی کمیشن بنا اور نہ میرے قرضے کی ریکوری میں ڈیرک سپرین اور سلیم سہگل کا مشکوک قتل ہوا۔
ملک کومعاشی بحران سے نکالنے کے لئے جو معیا ر اور سہولتیں سٹیٹ بنک نے اپنائیں اس کے مطابق قرضہ SETTLEکرایا ۔ حکومتی سپورٹ میرے فقّہ میں موجود نہیں بلکہ شر عََاحرام ۔اقتدار میں رہا نہ اقتدار والوں سے متاثر ہوا۔نہ ایسی کمزوری پالی کہ حکومتی گماشتے میرے عزم اور یقین کو متز لزل کر سکیں ۔حضور جبر میرے بڑوں کو نہیں جھکا سکا ۔جرائم پیشہ لوگوں سے ڈرتا نہیں ۔ اقتدار کا دبدبہ عزائم کو توڑ نہیں سکتا ۔ ایسے لعنتیوں پر” الف تف“ جو اقتدارکو ”تجارت“ کے فروغ کے لئے وقف کر چکے۔ آج پنجاب حکومت میرے درپے ہے ۔ میری موروثی جائیداد۔سلیکا سینڈ کی لیز۔1952سے قائم شدہ پیٹرول پمپ ، بنک کے معاملات اور دیگر جائیداد کے اوپر حکومتی مو شا گافیاں پورے جوبن پر ہیں طوفانِ بد تمیزی برپا ہو چکا ہے کوشش ایک ہی ہے کہ میرے خلاف FIRکاٹی جا سکے۔ اتفاق کا ڈیفالٹ شہباز شریف کی خود نوشت ”عزم و ہمت کی داستاں“ میں درج ہے اور جس ڈیفالٹ کو نوازشریف نے اپریل 1997میں اپنے قومی خطاب میں اجاگر کیا، جہاں قوم کو ایک حل دیا وہاں کمالِ بے شرمی سے اپنے لئے فرق حل تجویز کیا ۔فرمایا”بنک ہمارے کارخانے کی چابیاں لے کر ہمارے ڈیفا لٹ کو ایڈ جسٹ کریں “۔ پچھلے سولہ سال سے دس بنک اتفاق فونڈری کی چابیوں کے لئے قائدین کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور وہ چابیاں دبوچے بنکوں کے آگے آگے ۔
جھوٹ ، مکاری ، بددیانتی اور نا اہلی نے ان کی ”مت “ مار دی ۔ یونانی کہاوت ہے کہ جب اللہ کسی کو تباہ کرتا ہے تو پہلے ان کی ”مت “مارتا ہے ۔عزت اور ذلت میرے پر و ر دگار کے ہاتھ میں ہے ۔ شرمندگی اور رسوائی پہلے کی طرح ان کا ہی مقدر بنے گی ۔ وہ جلدی میں ہیں اس بار” جدہ کیمپ“ والی سیاسی رسوائی سے کچھ زیادہ ہی عبرت ناک انجام ۔اقتدار کے لالچ میں ہر گندگی کو اٹھا نا ان کی بد قسمتی کی میراث ہے ۔ حضورامریکہ سے ساز باز کر کے فوج کو نیچا دکھانے کے جتنے مرضی جتن کر لیں ۔پاک فوج” بد عہدفنکاروں “ سے پوری طرح باخبر بھی اور سازش کا حصہ بننے والوں کی گرفت کے لئے مستعد بھی ۔
مر حوم پیر پگاڑہ کا قول کہ ”وہ جب کمزور ہوتا ہے تو پاؤں پکڑ لیتا ہے اور جب طاقت ور ہوتا ہے تو گریبان پکڑ لیتا ہے“۔چنا نچہ اقتدار میں کئی صدور، چیف جسٹس پاکستان اورآرمی چیفس کے گریبان قائدِمحترم سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ ادھر طاہر القا دری کا نگران سیٹ اَپ میں کڑے احتساب کے مطالبہ نے امید کی شمعیں روشن کر دیں ۔کل ہی خادمِ اعلیٰ فرما رہے تھے کہ” جنہوں نے ملک لوٹا ہے وہ الیکشن ملتوی کروا رہے ہیں “۔ مزید ”فوج الیکشن ملتوی کروا رہی ہے“ سبحا ن اللہ کیا ملک”فوج اور طاہر القا دری“ نے لوٹا ؟ کیا یہ تیس سال سے اعتکاف بیٹھے تھے ؟کیا سودا گروں کو الیکشن خریدنے کی کھلی چھٹی ملنی چاہئے۔ حکومتی طاقت اور وسائل کا بہیمانہ استعمال کر کے نو جوانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت تحریک انصاف کو دبانے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا۔ پنجاب کے فنڈ زایک خاندان کی فیملی فوٹو کی تشہیر اور میڈیا کو شاد کر کے تبدیلی کے عمل کو روکا جا سکتا ہے نہ قوم کی دوہری کمر پر دوبارہ زین ڈالی جا سکتی ہے ۔نا ممکن !
وطن عزیز حالت نزا ع میں ہے ۔ سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے سامنے ہے اسی قبیل کے لوگوں نے اقتدار کی بھوک میں ملک کو دو لخت کیا ۔ آج بھی وطن عزیز کے بٹواروں پر اپنی سیاست کے دیپ جلانے کے چکر میں ہیں۔
غیر ملکی آقاؤ ں کی آ غوش میں بیٹھ کر اپنے عزائم کی تکمیل کا ہنر اب کسی کام نہیں آئے گا۔عالمی طاقتیں بھوکے بھیڑیئے کی طرح وطن عزیز پر نظریں گاڑھے چیرنے پھاڑنے کے لیے تیار۔ ہمارے سارے سیاسی اکابرین امریکی رحم و کرم پر ۔ گمان اغلب اگر طاہر القا دری کے مطالبات سازشوں کے شو ر و غو غا میں طو طی کی آواز نہ بن پائے تو عوام کے مستقبل کو خریدنے والوں کا مستقبل مخدوش ہی رہے گا۔کڑا احتساب روشن پاکستان کی ضرورت ۔ امریکی مک مکا سے نہ یہ سکندر بن پائیں گے اور نہ قوم کا مقدر۔ پچھلے پانچ سال سامنے رکھ کر جب چشم تصور میں وہ اگلے پانچ سالوں کے لئے اقتدارمیں دیکھتے ہیں توقومی وسائل کا ضیاع ، کرپشن، بھوک ، لوڈ شیڈنگ،غلامی اورتباہی نظر آتی ہے۔
خاکم بدہن اگر فوج کا ادارہ آپ کے امریکی گٹھ جوڑ سے متاثر ہوا تو پھر انقلابِ فرانس کی چاپ سنیں گے ۔ اور بقول اوریا مقبول جان عوام کا جمہوریت سے بھیانک انتقام اور کیا ہی برا وقت ۔حکمرانوتیار رہو اب لاشیں غریبوں کے گھروں سے نہیں بلکہ محلات سے”سوختہ حالت“ میں ملیں گی۔ قوم کے ارمانوں پر پانچویں بار شب خون مارنے سے پہلے فخرو بھائی اور عزت مآب چیف جسٹس صاحب طاہرا لقا دری کی چیخ و پکار کے ایک حصے پر توجہ ضرور دیں جرائم پیشہ لوگوں کو روکنے کا وقت آن پہنچا۔ حکومتی پیسے اور وسائل کے بے دریغ استعمال ، پراپیگنڈہ اور بد معاش جتھوں سے انتخابات لڑنا قوم کے مینڈیٹ کی توہین ہو گی۔ ۔صرف اتنا بتائیں قوم کے ارمانوں کا خون پیسے کے بل بوتے پرکب تک ؟ جائیداد بڑھانے والو، دود ھ سے نہانے والو، پچھلے سال شوگر مل ہتھیانے والو، فو نڈری کو بینکوں سے بچا کر غیر قانونی طریقے سے بیچنے والو، ایک پلازہ کے لئے ایم ۔ایم ۔عالم روڈ پر غریب پنجاب کے اربوں روپے خرچ کرنے والو ! حکمرانوصرف اتنا بتاد و ”کافی“ کب ”کافی“ ہو گا؟
تازہ ترین