• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:منیرحسین شاہ…مانچسٹر
پاکستان میں پانی کی اشد ضرورت ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی خصوصی احکامات سے ڈیم بنانے کا کام شروع ہوا ہے، پاکستان میں پانی کی شدید قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے لئے پاکستان اور بیرون ممالک بسنے والے پاکستانیوں سے چندہ دینے کی اپیل کی ہے اس بارے چند تلخ حقائق نظر سے گزرے جن سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ کتنا سنگین ہے اور کیا چندہ جمع کر کے ڈیم بن سکتا ہے، ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145ملین ایکڑ فیٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7ملین ایکڑ فیٹ پانی بچایا جا سکتا ہے، پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری شروع کی جائے اور اسی سلسلے میں انھوں نے عوام سے چندے کی اپیل بھی کی۔اس مقصد کے لئے چیف جسٹس نے فنڈ بنانے کا حکم دیا اور ’دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ 2018‘ کے نام سے قائم کئے گئے بینک اکاؤنٹ میں خود 10لاکھ روپے دیئے۔ثاقب نثار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے 15لاکھ روپے اس فنڈ میں ڈال دیئے۔ پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی اعلان کیا کہ فوج کے افسران دو دن اور سپاہی ایک دن کی تنخواہ اس ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں گے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر چندے کی تفصیلات کو دیکھا جا سکتا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا چندہ جمع کر کے کوئی ڈیم بنایا گیا ہے یا ایسا ممکن بھی ہے؟دیامیر بھاشا ڈیم کے قیام کا منصوبہ فوجی آمر اور صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیش کیا گیا جو کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان میں بھاشا کے مقام پر تعمیر ہونا ہے۔لیکن متعدد بار تعمیر کا افتتاح ہونے کے باوجود فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم ابھی تک صرف ابتدائی مراحل میں ہے۔انہو ں نے کہا کہ 4500میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے ڈیم کے منصوبے کے آغاز پر اس کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا لیکن مختلف ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی کل لاگت 18سے 20ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔واضح رہے کہ دریائؤں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ریورز کے مطابق دنیا بھر میں بڑے ڈیم بنانے کا رجحان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ ڈیم کی تعمیر کے لئے لگائے گئے ابتدائی تخمینے میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔حکومت پاکستان کو بھی دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمائے کی رہی جس کے لئے انھوں نے مختلف عالمی مالیاتی ادارے جیسے ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک، آغا خان فائؤنڈیشن وغیرہ شامل ہیں لیکن ان تمام اداروں نے سرمایہ دینے سے معذرت کر لی۔پاکستان میں 15میٹر سے زیادہ بلند ڈیموں کی تعداد 150ہے جس میں تربیلا اور منگلا سب سے پرانے ہیں جو کہ بالترتیب 1974اور 1967میں مکمل ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم پاکستان کے گلگت بلتستان علاقے میں ہے لیکن انڈیا اسے ابھی بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے۔گزشتہ سال پاکستان نے کوشش کی کہ پاک چین اقتصادی راہدراری کے مختلف منصوبوں میں دیامر بھاشا ڈیم کو بھی شامل کر لیں لیکن چین کی جانب سے رکھی گئی شرائط کی سختی کو دیکھتے ہوئے اس خیال کو ترک کر دیا گیا۔اس سال مارچ میں وفاقی حکومت نے اصولی طور پر اس ڈیم کی تعمیر کے لئے رقم مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں سے 370 ارب روپے اس ڈیم کی تعمیر کے لئے مختص کئے جائیں گے جبکہ واپڈا تقریباً 116ارب روپے اپنے ذرائع سے جمع کرے گا۔ بقیہ 163ارب روپے بینکوں سے قرضوں کی مد میں لئے جائیں گے۔حکومتی اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں دیامیر بھاشا ڈیم کے صرف پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت پر کام ہوگا جبکہ بجلی بنانے والے سیکشن کی تعمیر میں مزید 744 ارب روپے درکار ہوں گے اور کل منصوبے کی تعمیر پر14 کھرب روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ڈیم کی تعمیر کے لئے زمین حاصل کرنے اور آبادکاری کا کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور اس مقصد کے لئے اب تک حکومت 58ارب روپے خرچ کر چکی ہے جبکہ مزید 138ارب روپے اسی سلسلے میں مختص کئے گئے ہیں۔مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ یہ ڈیم قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دریائے سوات پر بنایا جائے گا۔ واپڈا کی دی گئی معلومات کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر 2012 میں شروع ہونا تھی اور اسے 2016میں مکمل ہونا تھا لیکن ابھی تک صرف پی سی ون ہی مکمل ہوا ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے 800میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی اور 12لاکھ ایکٹر سے زائد پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ فنڈ کے تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ڈیم جس کی تعمیر کا تخمینہ کم از کم 18سے 20ارب ڈالر کا ہو اور تعمیر کا دورانیہ 12سے 14سال ہو، کیا وہ محض چندے کی رقم سے بن سکتا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف ماہرین نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے شروع کئے گئے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے لئے قائم کئے گئے اس فنڈ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی افادیت پر سوال اٹھائے۔’دنیا میں کسی ملک نے ایسے منصوبے پر کام شروع نہیں کیا جس کی مالیت اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً دس فیصد حصے کے برابر ہو۔ ان کی معلومات کے مطابق دنیا میں کہیں بھی اتنا بڑا منصوبہ چندے کی مدد سے تعمیر نہیں کیا گیا ہے اور ان منصوبوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے جاتے ہیں۔حال ہی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے کہا گیا تھا کہ تربیلا ڈیم ’ڈیڈ لیول‘ پر پہنچ گیا ہے جبکہ منگلا ڈیم میں اب صرف آٹھ لاکھ ایکڑ فیٹ پانی رہ گیا ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی اسی سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ سال ارسا نے سی9نیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے ضیاع کی چند بڑی وجوہات میں موسمی حالات کی تبدیلی اور بارشوں کی کمی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی بچانے کے انتہائی ناقص ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی مقداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔
تازہ ترین