• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اپنے ممدوح طاہر القادری صاحب کے بارے میں جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں، الجھن کا شکار ہو جاتا ہوں کہ اتنی بڑی شخصیت کے نام کے ساتھ کیا القاب لکھوں، ان کے نام کے ساتھ عموماً شیخ الاسلام ڈاکٹر پروفیسر اور علامہ وغیرہ لکھا جاتا ہے اور یہ تمام القابات خود طاہر القادری صاحب کے تجویزکردہ ہیں اور یوں انہیں کمپنی کے منظور شدہ بھی کہا جاسکتا ہے، میری الجھن یہ ہے کہ ”شیخ الاسلام“لکھتے وقت یہ مسئلہ میرے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے کہ ابھی تک عالم اسلام تو کیا خود پاکستان کے کسی بھی مسلک کے علماء نے انہیں شیخ الاسلام تسلیم نہیں کیا۔ ”پروفیسر“ لکھتے وقت یہ الجھن درپیش ہوتی ہے کہ انہوں نے کالج میں بطور لیکچرار پڑھایا ضرور ہے، مگر وہ ”پروفیسر“ کے منصب تک نہیں پہنچ سکے تھے، ان کے نام کے ساتھ ”ڈاکٹر“ لکھتے وقت مجھے یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ کہیں کچھ لوگ انہیں ہومیو پیتھ ڈاکٹر نہ سمجھ لیں یا وہ اشتہاری ڈاکٹر جن کے پاس میٹرک کی سند بھی نہیں ہوتی مگر ان کے بقول انہوں نے امریکہ اور یورپ میں اپنی ”مسیحائی“ کی دھومیں مچائی ہوتی ہیں، سو میں کس کس کو سمجھاتا پھروں گا کہ میرے ممدوح وہ والے ڈاکٹر نہیں ہیں؟ البتہ میرے نزدیک علمِ دین پر ان کی دسترس کے باعث ان کے نام کے ساتھ موزوں ترین لفظ ”مولانا“ بنتا ہے لیکن ایک دفعہ ان کے ایک معتقد نے ایک بہت بڑے بینر پر دیگر تمام القابات کے ساتھ ”مولانا“ بھی لکھ دیا تھا طاہر القادری صاحب کا ادھر سے گزر ہوا، ان کی نظر اس بینر پر پڑی تو شاید غصے کے عالم میں ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لئے کہا اور اپنے اس معتقد کو سخت جھاڑ پلاتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ آئندہ کبھی ان کے نام کے ساتھ ”مولانا“ نہ لکھا جائے مجھے یہ واقعہ ان کے آبائی شہر جنگ کے ایک دوست نے سنایا تو مجھے لفظ ”مولانا“ کے حوالے سے اتنے غیظ و غضب کی سمجھ نہیں آئی۔ ممکن ہے اس کی وجہ علامہ صاحب کا یہ خدشہ ہو کہ کہیں لوگ ”مولانا“ کے لفظ سے انہیں بھی مولانا روم کی سطح پر نہ لے آئیں؟ سو لے دے کے صرف ”علامہ“ کا لقب رہ جاتا ہے جو میرے خیال میں بالکل غیر متنازعہ ہے تاہم اس میں بھی ایک معمولی سی قباحت ہے اور وہ یہ کہ ”علامہ“ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی طرح کی ایک دینی ڈگری تھی جو گھر بیٹھے بیٹھائے نہیں مل جاتی بلکہ کسی زمانے میں اس کے لئے باقاعدہ امتحان دینا پڑتا تھا لیکن یہ معمولی بات ہے کیونکہ میں صدق دل سے محسوس کرتا ہوں کہ طاہر القادری دینی مدارس کے ہزاروں فارغ التحصیل علماء سے کہیں بڑھ کر عالم ہیں۔ علامہ کہلانے کے لئے انہیں کسی ڈگری کی ضرورت نہیں اور یوں ان کے نام کے ساتھ ”علامہ“ کا لقب پھبتا ہے۔
معافی چاہتا ہوں، تمہید بہت لمبی ہوگئی، تاہم میں یکسو ہوگیا ہوں اور یوں میں اب بغیر کسی الجھن کے طاہر القادری صاحب کوعلامہ طاہر القادری لکھ سکتا ہوں، سو آج کا موضوع گفتگووہی ہے جو ہر خاص و عام کا ہے، ہر جگہ ہر ایک سے صرف یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ علامہصاحب کس کے اشارے پر کینیڈا سے اچانک پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی علامہ صاحب کے اس اقدام کو ان کے اخلاص پر مبنی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نظر نہیں آتا چنانچہ ہر کوئی ”کھرا“ ماپنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ سراغ لگا سکے کہ علامہ صاحب کا نقش قدم کدھر سے چلا ہے بلکہ اس نقش قدم کی اگلی منزل کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں، میں چونکہ علامہ صاحب کے معتقدین میں سے ہوں چنانچہ میں تو یہی سمجھتا ہوں جو ان کے دوسرے عقیدت مند سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب خالص پاکستان کی محبت میں پاکستان تشریف لائے ہیں لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ عوام الناس کے علاوہ ہمارے پچانوے فیصد کالم نگار، اینکر پرسن اور دانشور علامہ صاحب کے پروگرام کے حوالے سے شدید بدگمانیوں کا شکار ہیں ان سب کا خیال ہے کہ حضرت، معافی چاہتا ہوں، یہاں اس لفظ کا استعمال مناسب نہیں، یعنی علامہ صاحب جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنا چاہتے ہیں؟ ان کی زبان پر کچھ اور ہے اور عمل کچھ اور ثابت کررہا ہے۔ اصل میں ان صحافیوں کی اکثریت علامہ صاحب کو اس وقت سے جانتی ہے اور بہت قریب سے جانتی ہے جب وہ پاکستان کے شہری تھے۔ آدمی کسی کو قریب سے جانتا ہو تو وہ اسے گھر کی مرغی سمجھنے لگتا ہے اور یوں ان کے تذکرے میں لبرٹی لے جاتا ہے۔ علامہ صاحب نے اپنے پرانے جاننے والے متعدد ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا ہے اور ان کے دوران یہی بات دیکھنے میں آئی کہ یہ لوگ علامہ صاحب کی خطابت ،بلاغت، فصاحت،ذہانت کے باوجود ان کی نیت پر شک کئے جارہے ہیں اور ان سے متاثر نظر نہیں آتے، وجہ وہی جو میں نے ابھی بیان کی ہے اور نتیجہ یہ کہ کسی بڑے آدمی کو چھوٹے چھوٹے لوگوں سے بے تکلف نہیں ہونا چاہئے کہ اس بے تکلفی اور قربت کے سبب یہ چھوٹے لوگ اسے بڑا آدمی تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔
میں علامہ صاحب کے حوالے سے ادھر ادھر سے جو باتیں سنتا ہوں آپ یقین جانیں مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جو کچھ کہا جارہا ہے وہ یہ کہ علامہ صاحب کی آمد این آر او کی طرح امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے ایک نئے معاہدے کی تشکیل ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ وہ تمام جماعتیں جو آئندہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکتیں وہ” کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے“ کے اصول کے تحت علامہ صاحب کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہی ہیں، کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ سیاست کے استاد الاساتذہ آصف زرداری صاحب کا یہ نیا جال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی لگا کر وہ اپنے مطلوبہ مقاصد پورے کریں گے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر”بدگمان“ لوگ اس بار فوج کا نام نہیں لے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس کی روشنی میں یہ الزام فوج پر تھوپا جاسکے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ میجر جنرل باجوہ کی طرف سے اس نوع کی تمام بدگمانیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،تاہم آگے چل کر حالات کیا کروٹ لیتے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں ان میں سے کوئی تھیوری بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ میرے نزدیک علامہ صاحب قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں اگرچہ وہ پاکستان اور کینیڈا کے بیک وقت وفادار ہیں، اس انوکھی وفاداری کو”دہری شہریت“ کہا جاتا ہے جبکہ میرے ذہن کے مطابق یہ دہری نہیں”دوغلی شہریت“ ہے تاہم علامہ صاحب کے احترام اور ان سے بے پایاں عقیدت کے سبب میں یہاں یہ ترکیب استعمال نہیں کروں گا۔ مجھے اس امر کا بھی بہت دکھ ہے کہ ہم لوگ خوش گمانی سے کام لینا بھول چکے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ الفاظ کے استعمال میں بھی محتاط نہیں رہے۔ الزام لگاتے وقت بھی ہمیں خوف خدا محسوس نہیں ہوتا، گزشتہ روز علامہ صاحب کی پاکستان آمد کے حوالے سے ایک دانشور نے جو بات کہی وہ ا گرچہ بادی النظر میں درست لگتی ہے مگر مجھے اچھی نہیں لگی۔ اس نے کہا”کینیڈا نے طاہر القادری کی صورت میں پاکستان پر ”ڈرون اٹیک کیا ہے“ تو کیا میرے یہ دوست یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ صاحب پاکستان میں جو کچھ کررہے ہیں یا کرنے جارہے ہیں، پاکستانی حکومت کو کینیڈا سے شکایت لانچ کرنا چاہئے کہ آپ کا ایک شہری پاکستان میں ا نارکی پھیلا رہا ہے؟
تازہ ترین