جمعرات کے روز مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقہ اونتی پورہ میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے 44جوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔سیکورٹی فورسز کے 70سے زائد گاڑیوں پر مشتمل قافلے، جس میں ڈھائی ہزار اہلکار تھے کی ایک بس سے ایک خودکش بمبار نے تقریباً 350 کلو گرام بارود سے بھری کار کو ٹکرا دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جیش محمد نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ حملہ پلوامہ کے علاقے گنڈی باغ کے رہائشی عادل احمد المعروف وقاص کمانڈو نے کیا جو ایک سال سے کسی ایسے حملے کا انتظار کر رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بعض وزرا نے واقعہ کا الزام پاکستان پر دھرتے ہوئے سخت جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے اور یہ بات بھو ل گئے کہ خود بھارت بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کو ہوا دے رہا ہے۔ سی آر پی ایف کے ترجمان سنجے کمار کا کہنا ہے کہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خودکش حملہ آور کی گاڑی قافلے میں شامل تھی یا باہر سے آکر اس نے حملہ کیا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ دہشت گردی یا خون ریزی کہیں بھی ہو، کوئی بھی کرے، کسی بھی وجہ سے ہو قابل مذمت ہے۔ جہاں تک اونتی پورہ واقعہ کا تعلق ہے اسے جنوبی ایشیا کے معروضی حالات کے تناظر میں دیکھا اور تاریخ پر بھی نظر ڈالی جائے تو یہ گتھی سلجھانے میں آسانی رہے گی۔ درحقیقت بھارت میں انتخابات جیتنے کیلئے ’’پاکستان اور اسلام دشمنی‘‘ ایک اہم اور کارگر حربہ ہے جسے ہر کوئی اپناتا ہے خاص طور پر بی جے پی، یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جب پاکستان کے حق میں کوئی اہم پیش رفت ہونے والی ہو یا پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات بہتر ہونے کی کوئی امید بندھےتو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جسے بہانہ بنا کر بھارتی حکومت پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتی ہے۔ سردست سی پیک، آئی ایم ایف سے متوقع معاہدہ اور سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد ایسے معاملات ہیں جو بھارت کیلئے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا ممکن نہیں کہ اس سے پاکستان نہ صرف معاشی استحکام حاصل کرے گا بلکہ اس کا دفاع بھی مضبوط ہو گا۔ اونتی پورہ واقعہ پر کشمیری رہنمائوں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کا یہ بیان قابل غور ہے کہ پلوامہ اور کپواڑہ میںکچھ عرصہ سے ہونے والے مشکوک دھماکوں میں ایک نوجوان کشمیری کی شہادت اور متعدد کا زخمی ہو جانا تحریک آزادی کشمیر کو روکنے کی ایک انتہائی منظم سازش ہے اونتی پورہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتا ہے جس میں خود بھارتی ایجنسیاں ملوث نظر آتی ہیں۔ ثبوت ممبئی حملوں کے بعد اعلیٰ بھارتی پولیس افسر کرکرے کی رپورٹ ہے جس میںبتایا گیا کہ ان حملوں میں ہندو تنظیموں کا ہاتھ تھا، پٹھان کوٹ اور اوڑی کے واقعات بھی اسی طرح کی بھارتی سازشوں کا نتیجہ تھے۔ رہی بات عادل احمد المعروف وقاص کمانڈو کی تو وہ مقامی کشمیری نوجوان ہے۔جو اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے ایک اطلاع کے مطابق اس نے اپنا ایک ویڈیو بیان چھوڑا ہے جس میں اس نے اپنے منصوبے کی خود تفصیلات بتائی ہیں جس کے بعد پاکستان سے اس کا تعلق جوڑنا کسی طرح درست نہیں۔ بھارت اپنی ہر نااہلی یا حرکت پر بلاتامل پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیتا ہے پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تفتیش کئے بغیر واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کےبھارتی الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ اپنے فوری ردعمل میں انہوں نے درست کہا کہ پاکستان دنیا میں کسی بھی جگہ ہونے والے ایسے واقعات کے خلاف ہے ان کی مذمت کرتا ہے اور پلوامہ کے دھماکے کو انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی تنازعہ کشمیر کے تصفیے پر زور دیتے ہوئے درست کہا ہے کہ اس معاملے میں آگے چلنے کا راستہ نہ ڈھونڈا گیا تو پلوامہ جیسے واقعات مستقبل میں بھی ہوتے رہیں گے۔ جہاں تک بھارتی دھمکیوں کا تعلق ہے تو پاکستانی قوم اور پاک فوج بھارت کی کسی مہم جوئی سے نمٹنے کیلئے پوری طرح چوکس اور تیار ہے۔بھارتی حکومت کو اس طرح کی حرکت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے۔