• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں علم سماجی واقتصادی ترقی کے لئے اہم جزو بن گیا ہے. جن ممالک نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی اصل دولت ان کے ملک کے نوجوان ہیںوہ ان کی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کررہے ہیں، وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور دوسروں کو پیچھے چھوڑرہے ہیں. اگر پاکستان ترقی یافتہ قوموں کی صف میں پر وقار مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، تو ہمیں بلامبالغہ تمام سطحوں پر اعلیٰ معیار کی تعلیم میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اعلیٰ کارکردگی کے مراکز قائم کرنے ہوں گے ، جامعات کا معیار بلند کرتے ہوئے تحقیق کے عمل کو زراعت اور صنعتی ترقی کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا تاکہ ہم مضبوط علمی معیشت قائم کرسکیں. ایک اہم حالیہ پیش رفت ایک قومی ٹاسک فورس "علمی معیشت بذریعہ ٹیکنالوجی"(Technology Driven Knowledge Economy) کا قیام ہے. یہ ٹاسک فورس پاکستان کے وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کریگی۔ مجھے اس کا نائب چیئر مین بنایا گیا ہے۔ کئی وفاقی وزراء، وفاقی وزیر خزانہ، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی، وفاقی وزیر اطلاعات ٹیکنالوجی (IT) اور ٹیلی مواصلات وصنعت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین، اس میں شامل ہیں. اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے سے متعلق بہت سےنمائندے اور بعض اعلیٰ تعلیمی ماہرین بھی شامل ہیں جو اپنی مشاورتی رہنمائی کے ذریعے پاکستان کو کم زرعی معیشت سے علمی معیشت میں منتقل کر سکیں گے۔

اس وقت عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک چوتھے صنعتی انقلاب کے دور سے گزر رہے ہیںاور بہت سے ترقی پذیر ممالک جو اس کی اہمیت سمجھ چکے ہیں وہ بھی اس ترقی کی دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ اسی طرح ہی ملکی بقا ممکن ہے اور پر وقار ملت کی ضمانت ہے۔پاکستان ان چند خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں 20 سال سے کم عمرنو جوانوں کی تعداد تقریباًدس کروڑ ہے جو کسی خزانے سے کم نہیں جبکہ بہت سے مغربی ممالک اس نعمت میں ہم سے کافی پیچھے ہیں بس صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نوجوانوں کا مستقبل تابناک بنانے اور ساتھ ہی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ان پر تعلیم ، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی مد میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے۔ اس کے لئے ایک پر بصیرت اور وسیع النظر قیادت کی ضرورت ہے ۔

ہماری زبوں حال برآمدات پچھلے تیس سالوں کی حکومتی بدانتظامی اور انکے فرسودہ دعوئوں کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں، اگر ہم سنگاپور کی برآمدات سے موازنہ کریں تو ہماری برآمدات گزشتہ کئی سالوں سے21 ارب امریکی ڈالر تک ہی محدود ہیں جبکہ سنگاپور کی برآمدات 14گنا زیادہ یعنی تقریبا 330 ارب ڈالر ہیں اور بتدریج اضافے کی جانب رواں دواں ہیں۔ اس طرح کی انقلابی تبدیلی صرف قومی تعلیمی ہنگامی صورتحال کا اعلان کر کے اور اسکول، کالج اور جامعات میں تعلیم کو اوّلین قومی تر جیح دینے سے ممکن ہو سکتی ہے .اس کے علاوہ ہمیں جدید ٹیکنالوجیوں مثلاً حیاتی ٹیکنالوجی (Biotechnology)،قزمہ طرازی ٹیکنالوجی (Nanotechnology)، زرعی انجینئرنگ، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور برقیات (Electronics) میں اعلیٰ کارکردگی کے مراکز قائم کرنے اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام اہم شعبوں میں جدت طرازی کو فروغ حاصل ہو۔ ٹیکنالوجی کی تشہیر اور فروغ کے لئے ہمیں بڑے پیمانے پر نئے ڈگری یافتہ طلباء کو قرضوں کی سہولیات اور ٹیکس کی چھوٹ فراہم کرنی ہو گی تاکہ درمیانی اور اعلیٰ تکنیکی صنعت کاری کو فروغ حاصل ہو. جب میں سائنس و ٹیکنالو جی کا وفاقی وزیر تھا اس وقت اس طرح کا ایک ماڈل ہم نے خود بڑی کاوشوں سے قائم کیا تھا ۔ ہم نے2001میں معلوماتی ٹیکنالوجی

(Information Technology, IT) کو 15 سالہ ٹیکس کی چھوٹ فراہم کی اور اس شعبے کے فروغ کے لئے دیگر اقدامات کئے جس کے نتیجے میں آئی ٹی کی صنعت اور اس سے منسلک کاروبار میں 120 گنا اضافہ ہوا اور اسکی برآمدات انتہائی مختصر 3 ڈالر سے بڑھ کر اب بتدریج اضافے کے ساتھ تقریباً 3 ارب ڈالر پر ہیں۔یہ گوشوارے ان اقدامات کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

پاکستان اپنی تاریخ کی ایک اہم شاہراہ پر کھڑا ہے. اس وقت ہم بہت فعال عدلیہ کو دیکھتے ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، لیکن پھر بھی اب تک بدعنوانی میں ملوث اکثر سیاستدانوں کوسزا دیکر جیل نہیں بھیجا گیا ہے۔ .نیب بھی سالوں سےکی جانے والی وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے بعد جاگ رہی ہے۔ لیکن اسوقت سب سے زیادہ سنگین چیلنج جو نئی حکومت کو درپیش ہےوہ اقتصادی معاونت کاہے۔ بظاہر جی ڈی پی، برآمدات اور افراط زر کے لحاظ سے، معیشت حالیہ مہینوں میں کسی حد تک عارضی طور پر بہتر ہوسکتی ہے. تاہم، یہ بڑی حد تک ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ بجٹ خسارے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، اور ہم اس وقت پرانے قرضوں کو مزید ادھار لے کر ہی چکا سکتے ہیں۔ہم قرض کے انتہائی گندے دلدل میں جکڑ گئے ہیں.کیونکہ بیرونی اوراندرونی قرض دونوں غیر معمولی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ گئی ہیں اور پچھلی حکومت نے غیر ضروری اشیاء کی درآمدات کو ضبط کرنے یا ان پر بھاری ٹیکس لگانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی ہے.

ایسا لگتا تھا کہ گزشتہ 10 سالوں میں پیدا ہونے والی بڑی مالی بدعنوانیوں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں لیکن اب حالات تیزی سے مثبت پہلو اختیار کر رہے ہیں. جب تک کہ ہم کاروبار کو کم توانائی کے نرخوں ،اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کے لئے ٹیکس کی چھوٹ اور ایک مختلف نقطہ نظر کے ذریعہ ایک مضبوط علمی معیشت (Knowledge Economy) کو فروغ دینے کے لئے بھرپور انداز سے تبدیلی نہ لائیں تب تک پاکستان تنزلی کی گہری دلدل میں دھنستا چلا جائیگا۔

تازہ ترین