• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردوں کی آپس میں شادی، ہم جنس پرستی اور جنس تبدیل کی تعلیم ، پارک فیلڈ پرائمری اسکول میں زیرتعلیم بچوں کے والدین سراپا احتجاج

برمنگھم (نمائندہ جنگ) پارک فیلڈ کمیونٹی پرائمری سکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین سراپا احتجاج ہیں کہ صرف چار برس کے بچوں کو جنسی تعلیم، مرد سے مرد کی شادی ہم جنس پرستی اور جنس تبدیل کرنے جیسی تعلیم انتہائی غیر مناسب ہے، بچوں کو بچے ہی رہنے دیا جائے۔ ان کی معصومیت نہ چھینی جائے۔ ان خیالات کا اظہارمہم کی آرگنائزر سسٹر فاطمہ شاہ، سسٹر مریم احمد، امیر احمد نے احتجاجی مظاہرے سے کیا، ان کا کہنا تھا اس پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے والدین سے باقاعدہ مشاورت نہیں کی گئی۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اتنے کمسن بچوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں پڑھانا غلط ہے۔اس سے چھوٹے بچوں میں بلوغت سے پہلے نقصان دہ جنسی رجحان پیدا ہو گا اور وہ کنفیوژ ہو جائیں گے۔ وہ غیر محفوظ بھی ہوں گے اور فطری وقت سے پہلے اسے سمجھ بھی نہیں پائیں گے۔اس سے ان پر غلط اور نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے۔پارک فیلڈ کا چار سالہ بچہ گھر آیا اور کہا کہ اس کے ٹیچر نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے لڑکا یا لڑکی بن سکتا ہے اور لڑکوں یا لڑکیوں والے کپڑے بھی پہن سکتا ہے۔ایک دوسرے بچے نے اپنی والدہ کو بتایا کہ لڑکا لڑکے سے اور لڑکی لڑکی سے شادی کر سکتی ہے۔ ایک ماں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کی10 سالہ بچی نے ایک دن سکول سے واپس آکر پوچھا کہ امی کیا یہ درست ہے کہ میں لڑکا بن سکتی ہوں۔ استاد نے ہمیں بتایا کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم ایک لڑکی کے روپ میں لڑکا ہو۔ استاد نے ساری جماعت کو بتایا کہ تمام مذاہب میں مرد کی مرد کے ساتھ شادی جائز ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئےاستاد نے بتایا کہ اس کا مذہب عیسائی ہے لیکن اس نے ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے اور آپ بھی مسلمان ہوتے ہوئے مرد کسی مرد سے اور عورت کسی عورت سے شادی کرسکتے ہیں۔ہمیں یہ معلوم کرکے سخت پریشانی ہوئی کہ وہ ہمارے بچوں کا ذہن تبدیل کرنے میں کتنی گہری دلچسپی رکھتا ہے اور وہ کس طرح بچوں میں اپنے ذاتی نظریہ کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس نے اسلام کی غلط تشریح کرکے مسلمان بچوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ ہمارے لئے ہرگز قابل قبول نہیں۔اس سے سکول پر ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔بنیادی انسانی حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ہم کسی دوسرے کے نظریہ سے تعصب اور نفرت کے قائل نہیں لیکن سکول کا رویہ ہمارے دین اور اقدار کےخلاف نفرت اور تعصب پر مبنی ہے۔ ہم دوسروں کے ذاتی اختیار اور عقیدہ کی عزت کرتے ہیں کہ وہ جو بھی نظریہ رکھنا چاہیں یہ ان کا ذاتی حق ہے لیکن کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمارے معصوم بچوں کا ایمان خراب کرے۔ سکول کی یہ پالیسی غیر مناسب اور اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے۔ یہ ہمارے جمہوری حق کے خلاف ہے۔ ملکی قانون میں ہمارا یہ حق ہے کہ ہمارے بچوں کو ہمارے مذہب کے خلاف تعلیم نہ دی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سکول والدین سے خفیہ رکھ کر کوئی تعلیم ہمارے بچوں کو نہ دے بلکہ دیانتداری سے اپنا کام کرے۔ اور مسئلے کا جلد از جلد مثبت حل نکالے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ’’نو آؤٹ سائیڈرز ان آور سکول‘‘ کے پروگرام کو فی الفور بند کیا جائےاور اس کی جگہ ایسا پروگرام لایا جائے جو ایکوالٹی ایکٹ کے مطابق ہو، کسی کے کلچر اور مذہب کے خلاف نہ ہو، بچوں کی عمر سے مطابقت رکھتا ہو، بچوں کو دوسروں کی عزت کرنا سکھائے اور کسی کے بنیادی عقائد کے خلاف نہ ہو ۔ایکوالٹی ایکٹ یہ نہیں کہتا کہ کونسا مذہب اختیار کیا جائے بلکہ یہ کہتا ہے کہ ایسا رویہ اپنایا جائے جو دوسروں کے مذہب کی عزت پر مبنی ہو، کسی کے خلاف نفرت اور تعصب نہ ہو، کسی کی جنس کے خلاف بھی نہ ہو۔ ایک پیٹشن بھی سائن کی گئی ہے جو پارک فیلڈ پیرنٹس کمیونٹی گروپ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایمان بدلنے والی متعصب مہم نامنظور۔ پارک فیلڈ سکول میں پڑھایا جانے والا’’نو آؤٹ سائیڈرز ان آور سکول‘‘پروگرام فی الفور بندکیا جائے۔پارک فیلڈ سکول آلم راک برمنگھم میں واقع ہے اور اس کے98 فیصد بچے مسلمان ہیں۔ نو آؤٹ سائیڈرز ان آور سکول کا یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ یہ ایکوالٹی ایکٹ 2010ء کی وجہ سے ہے۔مرد کے ساتھ مرد کے جنسی فعل کو فروغ دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے بچوں سے زبانی اور تحریری اعلانات کروائے جا رہے ہیں۔ معصوم بچوں سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ زبانی اور تحریری طور پر تسلیم کریں کہ مرد کے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات درست ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اس ملٹی کلچرل سوسائٹی میں اگر کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلق رکھ سکتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے لیکن اس سکول کے والدین کے اقدار اور ایمان کے خلاف ہے۔ والدین کے ایمان کو نظر انداز کرکے ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔سکول اوراستاد کے ذاتی خیالات کے پیش نظر مرد کے مرد کے ساتھ جنسی تعلق کو جواز بخشنے کی کوشش کی گئی ہے۔استاد کا یہ مشن ان کے اپنے الفاظ میں ہے”میں خاص طور پر ایسے سکول میں کام کرنا چاہتا تھا جہاں اس بات کا قوی امکان ہو کہ میرے کام کی سخت مخالفت کی جائے اور میرے اس نظریہ کو چیلنج کیا جائے کہ مرد کا مرد کے ساتھ اور عورت کا عورت کے ساتھ جنسی تعلق قابل قبول ہے۔ میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایسا طریقہ اپنانا چاہتا ہوں کہ میرے نظریہ کو تسلیم کر لیا جائے‘‘۔(نو آؤٹ سائیڈرز ان آور سکول) لیکن ہم والدین یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ایمان کے خلاف یہ نظریہ ہمارے بچوں سے زبردستی تسلیم نہ کروایا جائے۔ جس طرح ہم کسی غیر مسلم سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ لازماًاسلام کی حقانیت کو قبول کرلے اسی طرح کسی غیر مسلم کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ ہمارے معصوم بچوں کو ان کے دین سے برگشتہ کردے اور وہ ہم جنسی تعلقات کو درست مان لیں،یہ مسلمان بچوں کو زبردستی مرتد بنانے کی کوشش ہے۔ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ دوسروں کے نظریات کا احترام کیا جائے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہم جنس تعلقات کو ہمارے بچوں سے زبردستی تسلیم کروایا جائےجس طرح غیر مسلموں کو ہم جنس تعلقات کو قبول کرنے کا حق ہے اسی طرح ہمارا بھی یہ جمہوری حق ہے کہ ہم اسے قبول نہ کریں جن لوگوں کا مذہب ہم جنس تعلقات کو اخلاقی طور پر غلط اور گناہ قرار دیتا ہے ان سے زبردستی اسے تسلیم نہ کروایا جائے۔نو آؤٹ سائیڈرز ان آور سکول کے مطابق جو بچہ مرد کے ساتھ مرد کے جنسی تعلق پر حیرت کا اظہار کرے یا اسے قبول نہ کرے اس سے نمٹنے کا طریقہ بتاتے ہوئےاستاد پارک فیلڈ سکول کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں کہ چھٹی جماعت کے صرف ایک بچے کے سوا مرد کے مرد کے ساتھ جنسی تعلق پر کسی نے اعتراض نہیں کیااور وہ گھبرا گیا اور اچھی بات یہ ہوگئی کہ اس کے اس رویے نے اسے بالکل تنہا اور شرمندہ کردیا۔ (نو آؤٹ سائیڈرز صفحہ 44)۔ستم ظریفی کتنی واضح کہ 98 فیصد مسلمان بچوں کے سکول میں جو برے عمل کو صحیح نہ سمجھے وہ تنہا ہو کر اپنے صحیح موقف پر بھی بھری محفل میں تنہا و یکتا ہو کر شرمندگی محسوس کرنے پر مجبور کردیا جائے۔ اس کے خلاف ڈراؤنا اور حقارت آمیز لہجہ اور ماحول بنا دیا گیا۔ اس نظریہ کی عمارت اس غلط بنیاد پر رکھی گئی کہ جو مرد کے ساتھ مرد کے جنسی تعلق کو صحیح نہیں مانتا وہ انسانوں سے نفرت کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ اسلام سے نفرت کرتا ہے۔

تازہ ترین