• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر ولی عہد سے بات کی جائے

بریڈفورڈ(پ ر) سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کاجس گرمجوشی سے اہتمام کیا جارہاہے ،اہل وطن بجاطور پراس سے بہتری کی توقع رکھ سکتے ہیں۔اس موقع پر حکومت کوسعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر کھل کر بات کرنی چاہئے جب سے سعودیہ نے نئے لیبر قوانین نافذ کیے ہیں پردیسیوں کے مسائل میں سو گنا اضافہ ہوگیاہے ، ویزا فیس ، تجدید اقامہ فیس اور انشورنش کے نام پرلاکھوں ریال ادا کرنے پڑتے ہیں جو ناقابل برداشت بوجھ ہیں جس کی وجہ سے لوگ پاکستان واپس آرہے ہیں جو ملکی مفاد میں ہرگز نہیں ہے اس لیے خاص طور پر پاکستانیوں کیلئے مراعات حاصل کی جائیں ، دوسری بار عمرہ وحج کیلئے جوفیس بڑھائی گئی ہے اس میں بھی نرمی کی جائے۔ ان خیالات کا اظہارمرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے سیکرٹری اطلاعات حافظ عبدالاعلیٰ درانی نے اپنے ایک بیان میں کیا۔انہوں نے کہااہل پاکستان نے حرمین شریفین اور عقیدہ توحید وسنت کی پاسبانی کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ ہمیشہ عقیدت کااظہار کیاہے ، وہاں کے عوام اور حکمرانوں کے اقدامات کی بڑی قدر کی ہے لیکن انہیں وہ سہولتیں وہ عزت و وقار اور وہ مراعات جو ان کا حق بنتا ہے ، حاصل نہ ہوسکیں ، حالانکہ انہیں سب سے زیادہ اہمیت و افضلیت ملنی چاہیے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی دور کے حکمرانوں نے بھی اپنے عوام کیلئے باعزت پالیسیاں نہیں بنائیں انہوں نے کہا صرف ایٹمی دھماکے والے سال سعودیہ میں پاکستانیوں کا احترام کیاگیاتھا،سعودی لوگوں کو پاکستانیوں کے ہاتھ چومتے دیکھا گیا اور یہ کیفیت چندروز رہی ہے اگر حکومت اس احترام کو باقی رکھناچاہتی تو ایسے اقدامات کرسکتی تھی لیکن کسی نے بھی عوام کے مفادات کاخیال نہیں رکھااس وجہ سے اہل وطن خوار ہوتے پھرتے ہیں اب تو غیر ملکی اتنی تنگی محسوس کررہے ہیں کہ اکثریت پاکستان واپس جاچکی ہے مولاناعبدالاعلیٰ نے کہاشاہ عبدالعزیز سے لے کرشاہ عبداللہ تک سبھی سعودی حکمران پاکستان کو اپنا دوسراوطن قرار دیتے رہے ہیں مگر نیچے اداروں میں پاکستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں اوریہ حقیقت اجاگرکرناحکمرانوں کا کام ہوتاہے پاکستان و سعودی عرب کے مابین بھائی چارے کی فضا صرف اونچی سطح پر نظر آتی ہے ،جبکہ ضرورت ہر سطح پر ان تعلقات کواجاگرکرنا ہے ، سعودی عرب کوپاکستانیوں کے ساتھ احترام و وقار کا معاملہ کرنا ہوگا، جو لوگ دس سال سے زیادہ سعودیہ میں مقیم ہیں انہیں مستقل ویزا دیا جائے ، تاکہ ان کی اولادوں کا تعلیمی حرج نہ ہو اور وہ وہاں کے ماحول کو اجنبی نہ سمجھیں ۔ سعودیہ میں متعین سفیر حضرات عربی زبان و اسلامی اخلاق سے نابلدہوتے ہیں اس لیے وہ کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکتے اس کا تجربہ ہمیں ذاتی طور پرہوچکاہے،اس لیے سفیرصرف اسی شخص کو مقرر کیاجائے جو بااخلاق اور باکردار ہو،اسلامی اتحادکی افواج کی کمان پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کررہے ہیں ، جب بھی سعودیہ کوضرورت ہوتی ہے پاکستانی افواج ان کی مدد کیلئے تیار رہتی ہیں ، بے شک سعودیہ نے پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں بے پناہ مدد دی ہے ، تیل کی بڑی مقدار ہمیشہ تقریباً فری دی ہے ۔ جب بھی معاشی حالات خراب ہوئے سعودیہ نے لاکھوں ڈالر فراہم کیے لیکن ان اچھے تعلقات کافائدہ وہاں کام کرنے والے عام لوگوں کو بھی ملنا چاہیئے،بیان کے آخر میں مولاناعبدالاعلیٰ نے کہاسعودی حکمرانوں نے پاکستان کی ہمیشہ اور ہر مرحلے میں بے پناہ مدد کی ہے اس لیے حکومت پاکستان کو جامع پالیسیاں مرتب کرنی چاہیے تاکہ وہاں کام کرنے والے لوگ دل لگا کر کام کریں جس سے ان کے چولہے بھی جلتے رہیں اورقومی خزانے میں زرمبادلہ بھی آتارہے اور سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان میں تشریف آوری کواہل وطن اورخاص طور پر سعودیہ میں کام کرنے والوں کیلئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مندبنایاجائے اور ایسے گہرے تعلقات بن جائیں کہ جیسے سعودی حکمران پاکستان کواپنا دوسراوطن سمجھتے ہیں ، پاکستانی بھی سعودی عرب کو اپنا دوسرا ملک سمجھیںاوران کے ساتھ غیروں والا برتاؤنہ کیا جائے۔
تازہ ترین