• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

16؍ سال بعد ہائی پروفائل سعودی شخصیت پاکستان کا دورہ کریگی

اسلام آباد (طارق بٹ) سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان کسی بھی اعلیٰ ترین سعودی شخصیت کا 16؍ سال بعد پہلا ہائی پروفائل دورہ ہے۔ اکتوبر 2003ء میں اس وقت کے ولی عہد مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اسلامی اجلاس سے واپسی پر پاکستان کا دورہ کیا تھا، اس موقع پر باہمی، علاقائی اور عالمی نوعیت کے اہم معاملات پر مذاکرات ہوئے تھے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کی جانب سے اسلامی یکجہتی کیلئے اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں اور اسلام کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ ولی 1984ء میں پاکستان آئے تھے اور انہوں نے افغانستان اور جنگ سے تباہ حال ملک سے سوویت افواج کی واپسی پر پاکستان کی پالیسی کیلئے بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ولی عہد عبداللہ نے مئی 1998ء میں پاکستان کی جانب سے جوہری دھماکوں کے بعد بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت شالیمار گارڈنز لاہور میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ دیگر مسلم ممالک کی طرح، سعودی عرب بھی پاکستان کے جوہری ملک بن جانے پر انتہائی حد تک مطمئن تھا۔ شاہ عبداللہ نے فروری 2006ء میں بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب سعودی عرب نے پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں تین عرب ڈالرز رکھوائے ہیں تاکہ بحران کے حالات میں اسلام آباد کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکے۔ موخر ادائیگیوں کی سہولت اس کے علاوہ ہے۔ ان کے معیاری طریقہ کار کے مطابق، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پانچ ممالک کے دورے کی شروعات پاکستان سے کر رہے ہیں، وہ ملائیشیا، چین اور بھارت بھی جائیں گے۔ ایک بڑا وفد ان کے ساتھ ہوگا اور اس موقع پر اربوں ڈالرز مالیت کے کئی معاہدوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے، یہ سعودی سرمایہ کاری کے لحاظ سے بے مثال اقدام ہے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یہ نوجوان سعودی ولی عہد کا پہلا ایسا دورہ ہے۔ جس طرح خلیجی جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو لاکھوں بیرل تیل روزانہ کی بنیاد پر فراہم کیا تھا، ریاض کی جانب سے پاکستان کو 1999ء اور 2000ء کے دوران خصوصی قرضہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے 2003ء میں ملائیشیا میں ہونے والے اسلامی اجلاس کے موقع پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی تھی، اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے بہتر انداز سے کام کرنے کی خواہش اور ساتھ ہی او آئی سی کی جانب سے مسلم ممالک کو دیرپیش مسائل اور ان کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تنظیم کے موثر انداز سے کام کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ 1998ء میں جوہری دھماکوں کے بعد، مغربی ممالک نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں لیکن سعودی عرب نے روزانہ پاکستان کو ایک سال تک کیلئے 50؍ ہزار بیرل تیل فراہم کیا۔ یہ مقدار پاکستان کی مجموعی ضرورت کا چھٹا (6/1) حصہ ہے جو موخر ادائیگیوں پر فراہم کیا گیا اور بعد میں ان ادائیگیوں کے ایک بڑے حصے کو گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ یکطرفہ تعلقات نہیں ہیں۔ پاکستان نے جنگ اور امن کے موقع پر ہمیشہ عرب ممالک کا ساتھ دیا ہے اور انہوں نے بھی ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ اگرچہ سعودی رہنمائوں کے پاکستان کے دورے بہت کم ہی رہے ہیں لیکن یکے بعد دیگرے پاکستانی حکمرانوں اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کے دورے کیے ہیں۔ اکثر اوقات، ان کی کوشش سعودی مالی مدد کا حصول ہے تاکہ پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالا جا سکے۔ اپنی 6؍ ماہ کی حکومت کے دوران، وزیراعظم عمران خان نے دو مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کیا ہے جس میں سعودی عرب سے درخواست کی گئی ہے کہ خراب مالی حالات کی وجہ سے وہ مالی مدد فراہم کرے۔ سعودی دوستی اور محبت کی شاندار مثال اس وقت نظر آئی تھی جب 2005ء میں ایک قیامت خیز زلزلے نے تباہی مچا دی تھی۔ سعودی حکومت نے اپنے ملک میں فنڈز جمع کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور پاکستان کے زلزلہ زدہ علاقوں اور، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں از سر نو بحالی اور تعمیراتی کاموں میں سب سے زیادہ فنڈز فراہم کرکے بھرپور مدد کی۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئے اپنے زیوارت تک بیچ دیے تھے۔ ہر مرتبہ جب بھی کوئی سعودی شخصیت پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو ان کے استقبال کیلئے شاندار انتظامات کیے جاتے ہیں۔ انہیں بے مثال اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسا کوئی علاقائی یا بین الاقوامی ایشو نہیں ہے جس میں دونوں ملکوں میں کوئی اختلاف سامنے آیا ہو۔ ولی عہد سعودی شہزادے کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔

تازہ ترین