• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان سے خصوصی گفتگو


جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے 1975ء میں جامعہ کراچی میں ملازمت اختیار کی۔ انھوں نے 1985ء میں اوہائیو یونیورسٹی، امریکا سے پی ایچ ڈی کیا اور 2011ء میں کراچی سے ڈی ایس سی ڈگری حاصل کی۔ 2001ء میں سائنسی خدمات پر انھیں تمغہ حسن کارکردگی اور 2007ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ ایچ ای سی نے 2005ء میں انھیں ’ڈسٹینگوشڈ نیشنل پروفیسر‘ کا اعزاز دیا۔ 2012ء میں وہ جامعہ کراچی سے بحیثیت میریٹوریس پروفیسر ریٹائر ہوئے، بعد ازاں قطر یونیورسٹی کے فوڈ سیکیورٹی پروگرام کے چیئر تعینات ہوئے۔ ایچ ای سی اور جامعہ کراچی کے تعاون سے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور 2009ء سے انسٹی ٹیوٹ ہذا کی یونیسکو چیئر کے سربراہ ہیں۔ وہ کنگ سعود یونیورسٹی، سعودی عرب کے ساتھ منسلک رہنے کے علاوہ قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں سائنسی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ مزید برآں، انھوں نے قطر یونیورسٹی میں سینٹرفار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور تاحال وہ فوڈ سیکیورٹی پروگرام کی سربراہی کررہے ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالے دنیا بھر میں نہ صرف شائع ہوتے ہیں بلکہ معروف محققین اور سائنسدان ان کی تحقیق سے حوالے (Citation) بھی لیتے ہیں۔

جنگ:آپ کو جامعہ کراچی کی وائس چانسلرشپ سنبھالے دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ بتائیے کہ پہلے اور اب میں کیا فرق ہے اور کتنی مشکلات اب بھی باقی ہیں؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: میں1970ء سے پہلے بطور طالب علم اور تعلیم مکمل کرنے کے بعدبھی اس عظیم ادارے کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں منسلک رہا ہوں۔ میں نے جب 1970ء میں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، اس وقت صرف بوٹنی ڈپارٹمنٹ کی ریسرچ پورے ملک کے دیگر بوٹنی ڈپارٹمنٹس کی مجموعی ریسرچ سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ آج ہم اسے پھر ماضی سے آگے لے جاناچاہتے ہیں۔ دریں اثناء، وائس چانسلر کے انٹرویو میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا آپ صورتحال ٹھیک کردیں گے کیونکہ باقی جو لوگ آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی کو ٹھیک کرناممکن نہیں ہے؟‘‘ میں نےجواب دیا، ’’یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ٹھیک کردوں گا۔ البتہ ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ جب وقت پورا ہوجائے گا تو مجھے یہ اطمینان ضرور حاصل ہوگا کہ میں خود سے کہہ سکوں کہ I did my best۔باقی جو اللہ کو منظور، وہی ہوگا‘‘۔

کراچی یونیورسٹی کو ٹھیک کرنا ایک بڑا چیلنج تھا اور اب بھی ہے۔ میرے آنے سے پہلے، کراچی یونیورسٹی میں لگ بھگ دو ہزارافراد کا تقرر کیا گیا تھا۔ ان تقرریوں کے چیدہ چیدہ نکات کچھ اس طرح ہیں: اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں 194ملازمین ہیں، جن میں6-5سے زائد ملازمین کو اکاؤنٹنگ نہیں آتی ہے۔ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں 164ملازمین ہیں، لیکن سارا کام ’آؤٹ سورس‘ ہوتا ہے۔ میرے آنے سے پہلے تمام ملازمین کو پکا (مستقل) کردیا گیا تھا، اس لیے آپ کسی کو نکال بھی نہیں سکتے۔ اب مجھے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو اِدھر اُدھر کردوں۔

جنگ: ڈاکٹر صاحب،یہ بتائیں کہ امتحانات اور اس کے نتائج کو شفاف بنانے کیلئے آپ نے کیا اقدامات لیے ہیں؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: شفافیت کےامتحانات اور اس کے نتائج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں بہتر طالبِ علم سامنے آتے ہیں۔ میں نے آنے کے بعد سخت اقدامات اُٹھائےاور خود بھیس بدل کر امتحانی عمل کا جائزہ لینا شروع کیا۔ امتحانات میں اربوں روپے کا کاروبار چلتا تھا، جس میں ہم قابلِ ذکر حد تک کمی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے مالی مفادات کو زَک پہنچ رہی ہے، وہ احتجاج کررہے ہیں۔ مجھے امید ہے ایک، دو سال میں ہم امتحانات کو مزید شفاف بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

جنگ: یونیورسٹی کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے کے کامیاب اقدامات کیا ہوسکتے ہیں؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: جب آپ خود مال نہیں کھاتے اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کرتے ہیں تو آپ کو ایک اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے۔ آپ کسی کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ معاف کیجیے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ وہ تلملاتے تو بہت ہیں، پھر کہتے ہیں اس کی فائلیں کھول دو، اچھا جی کھول لو۔ الحمدللہ، میں آج بھی اپنی 16سال پُرانی گاڑی چلا کر بہت خوش ہوں۔ ایسے میں جب میرے خلاف انھیں کچھ نہیں ملتا تو کہتے ہیں کہ پاگل آدمی ہے کیا کریں، کام تو ٹھیک کررہا ہے، برداشت کرو۔

جنگ: یونیورسٹی داخلوں میں آپ کس حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوسکے ہیں؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: یونیورسٹی میں داخلوں کے بے شمار کوٹے مختص تھے، جن کے ذریعے کئی کھیل کھیلے جاتے تھے۔ میں نے سارے کوٹے بند کردیے ہیں۔ اب کراچی یونیورسٹی کے ایڈمیشن سسٹم کو ہم نے مکمل طور پر آن لائن اور شفاف بنادیا ہے۔ بچہ چاہے کراچی میں بیٹھا ہو یا گلگت میں، سب کے لیے ایک ہی فارم ہے۔ وہ کمپیوٹر پر آن لائن فارم بھرے گا۔ پے منٹ واؤچر ڈاؤن لوڈ کرکے اس کا پرنٹ لے کر علاقے کے کسی بینک میں جائے گا، ادائیگی کرے گااور واؤچر کو اَپ لوڈ کردے گا۔ اگر اس کا نام آگیا تووہ دوبارہ ویب سائٹ پر جائے گا، ایک نیا واؤچر ڈاؤن لوڈ کرے گا، اس پر درج فیس ادا کرے گا اور اس واؤچر کے اَپ لوڈ ہوتے ہی اس کا ایڈمیشن کنفرم کردیا جائے گا۔ ایڈمیشن کے لیے آپ کو یونیورسٹی کے چکر کاٹنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ماضی میں گیٹ سے لے کر اندر تک، یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے ایک فساد ہوتا تھا اور لوگوں کو بے وقوف الگ بنایا جاتا تھا۔

جنگ: اخراجات میں کمی لانے کیلئے آپ نے کیا اقدامات لیے ہیں؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: اوور ٹائم کو تنخواہ کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ تقریباً ہر شخص ہی اوور ٹائم لے رہا تھا، یہاں تک کہ ہفتے اور اتوار کا بھی۔ میں نے 75فی صد اوور ٹائم بند کردیے ہیں۔ لوگوں نے یونیورسٹی کے گھروں میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے لیکن منٹیننس الاؤنس ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ تخمینہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے رہائشی علاقہ کی بجلی کا ماہانہ بل ہم ڈیڑھ کروڑ روپے کے لگ بھگ ادا کرتے ہیں جبکہ ان سے وصولی10سے15لاکھ روپے ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جب آپ ان سے پوچھیں تو آپ بُرے ہوجاتے ہیں اور ’گو وی سی گو‘ کے نعرے لگانے جمع ہوجاتے ہیں اور ہجومِ تماشائیاں کا ٹھٹھ لگ جاتا ہے۔

جنگ: ان معاملات کو درست کرنے کے لیے کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو کتنی سپورٹ حاصل ہے؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: مجھے یہاں تبدیلی لانی ہے۔ اس لیےمجھے سپورٹ ہے بھی اور نہیں بھی۔ مثال کے طور پر، نیب نے مجھے کہا کہ یونیورسٹی میں 54ڈپارٹمنٹس اور انسٹیٹیوٹس کا ایک ساتھ کمپوزٹ اشتہار آتا ہے۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں چار لیول ہوتے ہیں، بڑے لیول پر فارن ریویوز ہوتے ہیں۔ یہ ایک بڑا اشتہار ہوتا ہے، جسے مینج کرنے میں7-6سال لگ جاتے ہیں۔2012ء کے اشتہار نمٹانے کے بعد اس وقت میں وہ اشتہار ختم کررہا ہوں، جو 2014ء سے چل رہے ہیں۔ یہ کرتے کیا ہیں کہ ہر اشتہار کے تحت جو پہلا اپائنٹمنٹ ہوتا ہے، اس اشتہار کا ہر اپائنٹمنٹ اور پروموشن اسی پچھلی تاریخ سے کرتے ہیں، پھر چھ، سات اور آٹھ سال کے بقایا جات وصول کرتے ہیں۔ میں اس عمل کو روکنے کی کوشش کررہا تھا اور کررہا ہوں لیکن آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس معاملے پر میں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔

جنگ: ایک 62سالہ شخص کو یونیورسٹی کا رجسٹرار تعینات کرنے کا کیا معاملہ ہے؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ ابھی تک کسی 62سالہ شخص کا بطور رجسٹرار تقرر نہیں ہوا ہے۔ ایک صاحب تھے، جو تقریباً ایک ہفتہ قبل ریٹائرہوچکے ہیں۔ جب کسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک جگہ خالی ہوتی ہے تو اسے بھرنے کے لیے نیا اشتہار دیا جاتا ہے۔ رجسٹرار کی تقرری کا اشتہار ہم نے وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری کردہ ترمیمی آرڈیننس کی روشنی میں جاری کیا، جس میں رجسٹرار کے لیے عمر کی حد 62سال مقرر کی گئی ہے۔ میں نے تو حکومت کے مقرر کردہ معیارات کے عین مطابق اشتہار دیا ہے، ابھی یہ عمل جاری ہے، اس لیے کسی کا بطور رجسٹرار تقرر نہیں کیا گیا اور یقین رکھیں کہ میں نہ تو خود کوئی غلط کام کروں گا اور نہ ہی کسی کو غلط کام کرنے کی اجازت دونگا۔

جنگ: کیا یہ سچ ہے کہ ایک ایسے طالب علم کو کراچی یونیورسٹی میں داخلہ دیا گیا، جو انٹرمیڈیٹ بھی نہیں تھا جبکہ ایک اور طالب علم کو غلط ایکویلنس دی گئی؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: ہمارے مرکزی ایڈمیشن سسٹم میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ میرے پاس کچھ اطلاعات پہنچی ہیں کہ مین ایڈمیشن سسٹم سے ہٹ کر کچھ ایڈمیشن کھولے گئے تھے، لیکن کیوں کھولے گئے؟ یہ میں نہیں جانتا۔ میں اس مسئلے کی تحقیقات کروں گا اور اگر کسی بھی مرحلے میں کوئی غیرقانونی عمل پایا گیا تو کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

ایکویلنس والا قصہ دلچسپ ہے۔ ایک بچے نے او لیول، اے لیول کے بعد ایکویلنس کے لیے ہماری یونیورسٹی سے رابطہ کیا۔ ایسے بچوں کو عموماً چند ایک اضافی کورس ہمارے پاس کرنے پڑتے ہیں، جس کے بعد انھیں ایکویلنس مل جاتا ہے۔ وہ کورسز پاس کرنے کے بعد بھی ہمارے لوگ اس بچے کو تنگ کیے جارہے تھے۔ بالآخر اس کی شکایت مجھ تک پہنچی۔جب تحقیق کروائی تو پتہ لگا کہ ہمارے لوگ اس سے پانچ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں۔میں یہ مسئلہ ڈینز کمیٹی کے سامنے لے گیا اور مؤقف اختیار کیا کہ اس بچے کو میرٹ پر ایکویلنس ملنا چاہیے۔ کمیٹی میں، میں نے ان صاحب کو بھی بلاکر کہا کہ تم ایکویلنس کے لیے پیسے مانگتے ہو،خدا کا خوف کرو، شرم کرو۔ اس بات کو بنیاد بناکر ان صاحب نے یہاں کے ایک لیڈر سے گورنر سندھ کو ایک خط بھجوایا کہ وائس چانسلر لوگوں کو دھمکاتا اور غلط کام کرواتا ہے۔ اس خط کی کاپی چیف آف آرمی اسٹاف، چیف جسٹس پاکستان اور نہ جانے کس کس کو بھجوائی گئی۔

جنگ: کیا ڈین آف لاء کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے میں کسی قسم کی بے ضابطگی ہوئی ہے ؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: ڈین ہمیشہ ایک پی ایچ ڈی بن سکتا ہے۔ لاء میں آپ کو بہت کم لوگ پی ایچ ڈی ملتے ہیں، نہ ہونے کے برابر۔ آپ لاء میں کوئی پی ایچ ڈی دےدیں، میں انھیں ڈین بنادیتا ہوں۔ میں نے وزیراعلیٰ کو لکھا ہے کہ نئے ڈین کے تقرر تک موجودہ ڈین کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کردی جائے۔ وزیراعلیٰ کا جواب آنے میں دیر ہوئی تو میں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈین کی مدتِ ملازمت میں اس وقت تک توسیع کردی، جب تک کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوجاتا کیونکہ مجھے بہرحال ڈپارٹمنٹ چلانا ہے۔ اب وزیراعلیٰ نے باقاعدہ طور پرڈین آف لاء کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے تو اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ توسیع وائس چانسلر نے دی ہے۔ اب ہماری کوشش ہے کہ موجودہ ڈین کی توسیعی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی نیا ڈین آف لاء ہمیں مل جائے۔

جنگ: چھ ماہ تک کی عارضی اور پارٹ ٹائم تقرریاں کرنے کا اختیار وائس چانسلر کو حاصل ہوتا ہے یا نہیں؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: جی آپ نے دُرست نشاندہی کی ہے۔ تاہم نیب کی طرف سے 49نکات پر مشتمل ایک ایجنڈا دیا گیا ہے اور میں اس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں  اختیارات کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے اور ماضی کے غلط کاموں کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑرہا ہے، میں اپنے جائز اختیارات بھی استعمال نہیں کرسکتا۔

جنگ: پی ایچ ڈی الاؤنس کا بھی کوئی مطالبہ ہے؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: ایچ ای سی کا پی ایچ ڈی الاؤنس 10ہزار روپے ہے۔ پھر سندھ حکومت نے اعلان کیا کہ 15ہزار روپے شامل کرکے اسے 25ہزار کردیا جائے۔ اب اساتذہ چاہتے ہیں کہ اسے ان کی تنخواہ کا حصہ بنادیا جائے۔ چونکہ تنخواہیں ایچ ای سی کا اختیار ہے، اس لیے ہم اس مسئلے کو سنڈیکیٹ میں لے گئے کہ کیا کرنا ہے۔ ایچ ای سی نے ہمیں سختی سے منع کردیا ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ سندھ حکومت نے پہلے بھی ساڑھے چار ماہ بعد پانچ ماہ کے الاؤنس کے فنڈز ہمیں دیے تھے، جو میں نے فوراً جاری کردیے۔ اب بھی سندھ حکومت سے جیسے ہی فنڈز ملیں گے، انہیں ادا کرنے میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کروں گا۔

جنگ: ڈاکٹر صاحب، ہمارے قارئین کے ساتھ کوئی خوشگواربات شیئر کریں ؟

ڈاکٹر محمد اجمل خان: ہم نے تھر کے بلاک2میں، جہاں کوئلے پر کام ہورہا ہے، وہاں کھارے پانی سے جانوروں کا چارہ تیار کرنے کے پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کے سب سے بڑے کرتا دھرتا، وزیراعلیٰ سندھ ہمارے پروجیکٹ کو سیکڑوں دفعہ دیکھ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ یہ بہت اچھی چیز ہے اور اسے بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اب میں اس انتظار میں ہوں کہ وزیرا علیٰ کب اس طرف نظرِ کرم کرتے ہیں۔ آپ ہر آئے دن تھر میں خشک سالی کی خبریں سُنتے ہیں۔ میں دعویٰ سے یہ بات کہتا ہوں کہ میری ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاکر دیکھیں، اتنا چارہ پیدا ہوگا کہ اس کے بعد تھر میں کبھی کوئی جانور بھوکا نہیں مرے گا۔ صرف یہی نہیں، وہاں جانور پالیں، جنھیں کھلانے کے لیے چارہ ہمارے پاس بے شمار ہوگا۔ انھیں ذبح کریں، باقاعدہ پیکیجنگ کریں اور پھر اس کی مارکیٹنگ کریں، وہاں سے گوشت ملک بھر میں اور مشرقِ وسطیٰ میں بھیجیں، میں کہتا ہوں ہم تھر کو پاکستان کا امیر ترین ضلع بناسکتے ہیں۔ بطور سائنسدان میں یہ بات انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔

جتنی خرابی آنا تھی، آچکی، اب یہاں سے بہتری کا سفر شروع ہوا چاہتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس تبدیلی کے ثمرات راتوں رات محسوس کیے جائیں گے، اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

تازہ ترین