• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین اس ترقی یافتہ دور میں تحقیق کر کے قدیم چیزیں تلاش کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ماہرین نے سمندر میں پا ئے جانے والے ایک کیڑے کے بارے میں بتا یا کہ یہ ایسے دانت رکھتا ہے جو مقناطیسی مادّے ’’میگنیٹائٹ ‘‘ پر مشتمل ہیں اور اسے دیکھ کر ماہرین اگلی نسل کے میٹریل اور توانائی کے لیے نینو اسکیل اشیا بنا سکیں گے ،جس کے لیے ابتدائی تحقیق شروع ہوگئی ہے ۔ یہ اپنے دانتوں سے الجی کھرچ کھرچ کے کھاتا ہے ۔اسے دیکھتے ہی ماہرین کو خیال آیا کہ اس سے ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہنے والے اوزار اور توانائی پیدا کرنے والے نینو پیمانے کے میٹریل بھی بنائے جاسکتے ہیں ۔اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ میگنیٹائٹ زمینی چٹانوں میں پایا جاتا ہے اور اسےبہت ہی کم جان داروں میں دیکھا گیا ہے ۔یونیو رسٹی آف کیلی فور نیا ،ریورسائیڈ کے سائنس دان پروفیسر ڈیوڈ کیسا ئلس اور اوکایا ما یونیورسٹی کے ڈاکٹر میشی کو نیموٹونے مل کر اس کیڑے کے جینیاتی وجوہ کو معلوم کیا ہے ،جس کے ذریعے اس کے دانتوں میں مقناطیسی خواص پیدا ہوتے ہیں ۔اس کیڑے کے منہ میں دانتوں کی کئی قطاریں ایک ربن کی طر ح موجود ہیں۔ دانت کی نوک میگنیٹائٹ پر مشتمل ہے ،جسے ہی دانت ٹوٹتا ہے تو نیا دانت بننا شروع ہوجاتا ہے ۔ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ دانت میں فولاد جمع کرنے اور خارج کرنے والے ایک حصے میں فیراٹن نامی پروٹین موجود ہے جو دانتوں کی افزائش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔مجموعی طور پر ایسے 22 پر وٹین دریافت کیے جو دانتوں میں مقناطیسیت پیدا کرتے ہیں ۔ان میں ایک نیا پروٹین’’ ریڈیو لر ٹیتھ میٹرکس پروٹین ون ‘‘بھی شامل ہے ۔اس کی مدد سے ماہرین الیکٹرانکس ،نینو اسکیل توانائی ،حیاتیاتی مقناطیس اور کئی ٹیکنالوجیز پر کام کر سکیں گے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین