• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یخ بستہ دسمبر گزر گیا اور موسم اپنی پوری شدت کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوگیا۔ پچھلے سال کا آخری دن بھی کہر آلود تھا اور نئے برس کا پہلا دن بھی دھند سے بھرپور مگر سیاست کا پورا سراپا تپش کی نشاندہی کررہا ہے ۔ دسمبر کے آخری عشرے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے جو کہا وہی زیر بحث ہے۔ اسی نے سیاست میں بھونچال پیدا کررکھا ہے۔
پچھلے دنوں بہت کچھ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیاست کا آغاز کیا۔ ان کی تقریب رونمائی گڑھی خدا بخش سے ہوئی۔ انہوں نے گڑھی خدا بخش میں مدفون شہداء کا تذکرہ بھی کیا اور بہت سے لوگوں کو للکارا، ساتھ ہی فیض کے نرم اور انقلابی لفظ بھی ادا کردیئے۔ پیپلز پارٹی کی محبت کے اسیروں نے اس تقریر کو سراہا مگر مخالفین کو کوئی نئی بات نظر نہ آسکی۔ خیر اتنا تو تھا کہ بلاول بھٹو زرداری پوری تیاری سے آئے تھے، انہوں نے سب کی خبر لی۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ایک دھچکا لگا ہے۔ ان کی اہم ساتھی اور برطانیہ میں ترجمان رابعہ ضیاء ان سے جدا ہو کر ن لیگ سے جا ملی ہیں۔ میں نے رابعہ ضیاء کو عمران خان کیلئے جان لڑاتے ہوئے دیکھا ہے، وہ ان کیلئے فنڈز بھی اکٹھا کرتی تھیں۔ گزشتہ دنوں مجھے عمران خان سے کوئی خاص بات کرنا تھی، بات ایسی تھی کہ فون پر مناسب نہیں تھی مجھے کہا گیا کہ اس مقصد کیلئے میانوالی جانا پڑے گا۔ میانوالی پہنچا تو کہا گیا کہ کالا باغ آجاؤ۔ میں ایک اہم دوست کے ساتھ کالا باغ گیا جہاں عمران خان کا جلسہ تھا جلسے کے بعد عائلہ ملک کی رہائش گاہ ”بوہڑ بنگلہ“ پر ظہرانہ تھا اسی ظہرانے پر وہ خاص بات ڈیڑھ سے دو منٹ میں ہوگئی۔ میں نے واپسی پر میانوالی میں عام لوگوں سے عمران خان کے بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلا کہ عمران خان شوق سے دوچار روز سے میانوالی میں نہیں ہیں ان کا مقابلہ بہت سخت ہے اگرچہ وہاں سے عائلہ ملک اپنے خاندانی روابط کو بروے کار لا کر عمران خان کیلئے رستہ ہموار کررہی ہیں مگر ہنوز مشکلات ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ میانوالی میں عمران خان کی طرف سے کئے گئے سماجی کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انتخاب کے وقت عمران خان کو ان کاموں کا بہت فائدہ ہوگا۔ کالا باغ میں رابطہ عوام مہم کے دوران انعام اللہ نیازی بھی چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ تھے اگر اس حلقہ کی ایک اور اہم شخصیت عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی بھی ساتھ ہوتے تو بہتر ہوتا کیونکہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی عام لوگوں میں بے حد مقبول ہیں۔ انہوں ہی نے عیسیٰ خیل کا نام دنیا بھر میں مشہور کیا۔ مجھے کالا باغ سے اسلام آباد تک یہ سوچ ڈستی رہی کہ وہاں کے لوگ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کے پوتے کا ساتھ دیں گے یا پھر پوتی کا کہنا مانیں گے کیونکہ پوتا ملک عماد خان پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہے اور پوتی عائلہ ملک نے عمران خان کیلئے دن رات ایک کررکھا ہے۔ دیکھئے اگلے انتخابات میں تبدیلی کا نعرہ کہاں تک پہنچتا ہے۔ مجھے تو فی الحال انتخابات نظر ہی نہیں آ رہے۔
مسلم لیگ ن نے خود کو عام انتخابات کیلئے پوری طرح تیار کررکھا ہے اگرچہ ن لیگ پہلے عمران خان کے ہاتھوں پریشان تھی اور اب طاہر القادری کے تازہ اقدامات کے باعث بے حد پریشان ہے۔ میاں شہباز شریف جلسے کررہے ہیں، نواز شریف سوچ بچار کررہے ہیں اور مریم نواز نت نئی حکمت عملیاں بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ عمران خان کے لاہور میں جلسے کے بعد مریم نواز نے حکمت عملی کی باگ ڈور سنبھالی، اس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہیں۔ ن لیگ آج کل سروے کا سہارا لے رہی ہے۔ سنا ہے کہ ن لیگ ہر حلقے سے سروے کراتی ہے وہاں سے جیتنے والے امیدواروں کو تلاش کرتی ہے اور پھر اسے ن لیگ کا حصہ بنا لیتی ہے۔ اس نیک مقصد کیلئے نظریات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، صرف انتخابی سیاست کو اہمیت دی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں گوہر ایوب اور عمر ایوب ن لیگ کا حصہ بن گئے۔ دانیال عزیز بھی پر تول رہے ہیں۔ اس سے پہلے بہت سے ”مشرفی“ ن لیگ میں شمولیت کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ چند دن پیشتر جھنگ سے آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کی رکن بننے والی صائمہ اختر بھروانہ بھی ن لیگ کا حصہ بن گئیں۔
صائمہ اختر بھروانہ اپنے حلقے میں بہت مقبول ہیں اسی لئے تو وہ آزادانہ حیثیت میں بھی مخالف امیدوار کو بھاری ووٹوں سے شکست دیتی ہیں۔ ن لیگ رحیم یار خان سے چوہدری منیر ہدایت اللہ کو قومی اسمبلی کا امیدوار بنانا چاہتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے اس رشتہ دار کا رحیم یار خان کی سیاست میں بڑا عمل دخل ہے۔ وہ ضلع کی کئی سیاسی شخصیات کے اخراجات کے بوجھ برداشت کرتے رہے ہیں۔عمل دخل سے یاد آیا کہ ایک ملک صاحب کی ایک اور ملک صاحب کے کہنے سے جاں بخشی ہوگئی ہے ورنہ بڑے صاحب تو ناراض تھے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اس عہد میں کئی شخصیات کو ہٹاتے اور نوازتے ہوئے دیکھ کر یقین ہوگیا ہے کہ سیاست واقعی بے دل ہے۔ دل نہیں تو درد کیسا؟ پاکستانی سیاست کا سینہ اسلام آباد ہے۔ یہ خوبصورت شہر مارگلہ کے قدموں سے لپٹا ہوا ہے۔ اسے شہر سبزہ و گل کہا جاتا ہے مگر یہاں وفا ناپید ہے۔ سیاست کا یہ سینہ کسی کیلئے مستقل محبت نہیں رکھتا۔ یہ بے وفا محبوب ہے اور لوگ اس کی محبت میں دیوانہ وار گرفتار ہیں۔ اسی شہر میں لانگ مارچ کا ڈول ڈالا جا رہا ہے، اس شہر کو التحریر اسکوائر بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دن تھوڑے ہیں خوف زیادہ ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کو طاہر القادری کے جلسے سے پریشانی نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کے مل جانے سے کامیابی کی پکّی نشانی مل گئی ہے۔ چودہ جنوری قریب ہے اور مذکورہ تاریخ سے پیشتر دوچار اور پارٹیاں طاہر القادری کی ہمنوا بن جائیں گی۔ طاہر القادری اور ہمنواؤں کا مطالبہ ہے کہ فوج راستہ نہ روکے۔ وہ ہر قیمت پر خواہاں ہیں کہ انتخابات سے قبل اصلاحات ہوں، احتساب ہو، ان لوگوں کا راستہ روک دیا جائے جو عرصے سے جمہوریت کے نام پر جمہور دشمنی کررہے ہیں۔ طاہر القادری کا موقف ہے کہ ایسی پارلیمینٹ کا کیا فائدہ جس سے نہ ملک کا فائدہ ہو نہ ملکی عوام کی بہتری ہو۔ ڈاکٹر طاہر القادری ایم کیو ایم کی مدد سے لاکھوں افراد لانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ نے ہر حال میں قادری صاحب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
چوہدری برادران نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے ایجنڈے کی حمایت کی ہے، وہ افرادی قوت نہ بھی دیں تب بھی ڈاکٹر صاحب کی کامیابی ہے۔ خیال ہے کہ سندھ سے کچھ جماعتیں ڈاکٹر طاہر القادری کی حامی بن جائیں گی۔ چودہ جنوری کے لانگ مارچ سے پیپلز پارٹی شاید خوفزدہ نہیں کیونکہ حکومت میں شامل دو بڑی جماعتیں طاہر القادری کے ایجنڈے کی حامی ہیں۔ پریشانی ن لیگ کی ہے جسے باری چھن جانے کا ڈر ہے یا پھر مولانا فضل الرحمن پریشان ہیں جنہیں مذہبی سیاست ہاتھ سے جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں اسلام آباد میں میدان سجے گا تو خطرات بڑھیں گے کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ خواب سے حقیقت کی طرف جاتی ہوئی گزرگاہ پرشبنم اعوان کا شعر یاد آگیا ہے کہ
ملی ہے خوش گماں تعبیر شبنم
کہ خوابوں کا نگر بھی سج گیا ہے
تازہ ترین