• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
یہ ہماری خام خیالی ہے کہ دنیا کے بہت سے ادارے اپنے اپنے ممالک کو آگے لیکر چلنے میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہر ملک کا نظام اس کی عدلیہ، اس کے حکمران، اس کی فوج، اس کے بنائے گئے رولز اور ریگولیشن اور کہیں جمہوری نظام کہیں آمریت یہ سب ملک کو چلاتے ہیں۔ مگر ہر ملک کی سیاست میں صحافت کا کردار دیگر حکومتی مشینری سے کہیں بڑھ کر ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ عدلیہ، اشرافیہ، رولز و ریگولیشن اور دیگر ادارے ایک طرف اور میڈیا اورصحافت ان سب پر بھاری ہے۔ صحافت جس طرف کروٹ لے حالات کا اونٹ ادھر ہی بیٹھے گا۔ کہیں کسی ملک میں یہ ہونہ ہو مگر پاکستانی سیاست میں اس کا کردار نہایت اہم ہو چلا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاسی حالات اب صحافیوں کی مٹھی میں بند ہیں جہاں انہوں نے منہ اور مٹھی کھولی وہیں پر پوری قوم کو حالات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ میڈیا جو کہہ دے سیاست کی ہوا اسی رخ ہو جاتی ہے۔ قومی دھاروں کے بدلنے اور سوچ کو جلا بخشنے میں ملک میڈیا و صحافیوں پر انحصار کرتا ہے۔ پہلے کبھی استاد اور تعلیمی ادارے پر پورے ملک کو اعتماد کرنا ہوتا تھا کہ یہاں سے اقدار کی، اخلاقیات کی، شعور و احساس کی، افکار و نظریات، تہذیب و تمدن کی، بودو باش کی، انسان و انسانیت کی، حق و سچ کی کونپلیں پھوٹیں گی مگر اب ان سب کی ذمہ داری میڈیا نے اور صحافت اٹھالی ہے۔ تعلیمی اداروں کی جگہ میڈیا ہائوسز نے لے لی اور استادوں کی جگہ صحافیوں نے لے لی ہے۔ اس لحاظ سے تو اب اس نجات دہندہ کے ادارے کو صاف ستھرا ہونا چاہئے کہ ملک میں عدالتی نظام سے لیکر دوسری حکومتی مشینری چلانے والے ادارے جب صاف و شفاف ہوں تو یہ کیوں نہیں جس پر قوم کی قسمت کی نیا بہتی ہے ماحول و معاشرہ ، قوم و ملک اور سیاست کو اپنی انگلیوں پر نچانے والا میڈیا اگرچاہے تو ان تمام کو اچھائی کی طرف راغب کرکے بھرپور رول ادا کرسکتا ہے۔ جب پوری دنیا نے مان ہی لیا کہ میڈیا ایک آلہ کار ہے زمانے کی چال ڈھال بدلنے کا تو پھریہ حق اور سچ کی آواز بنے تو بات بنتی ہے۔ کچھ ملائوں کا خیال ہے ہم ایک فسادی دور میں جی رہے ہیں۔ جہاں آئے روز اسلام اور مسلمانوں کےخلاف پروپیگنڈے جاری ہیں اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے کردار کو داغدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی اصلیت کو بگاڑ کر پیش کیا جارہا ہے تو یورپین میڈیا کی اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے اسلامی دنیا کے ذرائع ابلاغ کو موثر ترین آواز بن کر ان کے ڈھنڈورا پیٹتے شور کو دبانا چاہئے۔ حق اور سچ کی آواز بلند کرنے میں کسی کمزو سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی رشوت کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی طاقتور ملک کی طرف سے کسی ڈونیشن کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ تو اپنے اندر کی آواز ہوتی ہے، اپنے ضمیر کی آواز ہوتی ہے جو حق اور سچ کی حمایت میں اٹھائی جاتی ہے۔ اسلامی علما کا یہ بھی خیال ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی پھیلی سازش کو اسلامی ممالک کا میڈیا کیسے روک پائے گا جبکہ ہمارا اپنا کردار یہ ہے کہ ہم قوم کو شعور و آگاہی دینی سے زیادہ باطل و شر کو پھیلا رہے ہیں، بد اخلاقی، لا یعنی بے معنی فضولیات، روایات و اقدار کی دھجیاں اڑا کر انہیں اصل روح سے غافل کیا جارہا ہے۔ انسان دوستی اور قوم کا درد سمجھ کر اگر کوئی صحافی معاشرے میں اہم کردار ادا کرے تو اسے نہایت معتبر جان کر قوم اس کے کہے پر اندھا یقین کرلیتی ہے۔ پھر اس صحافی کا کردار بھی اگر شفاف ہو تو وہ میڈیا ہائوسز کی طلب اور عوام و اداروں میں معتبر ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی ملک و قوم کی، لیڈران کی، حکومتی مشینری کی اور میڈیا ہائوسز کی شدید ضرورت بن گئے ہیں حسن نثار جیسے صحافی، کہ جن کا کہا پتھرپر لکیر ثابت ہوتا ہے وہ جب بولتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سچا کھرا انسان ہے جس نے کبھی بڑے سے بڑے ذرائع ابلاغ کے ادارے کو اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق ہی اہمیت دی کبھی کسی میڈیا ہائوس کی پابندی کے تحت یا پالیسی کے ماتحت نہ ہوئے۔ جو معاشرے کے مسائل پر بولا تو سچائی کے ساتھ ،عوام کی پریشانیوں پر اواز اٹھائی تو ڈٹ کر، سیاست پر بولا تو ضمیر جگا کر، سیاست دانوں کیلئے بولا تو حقائق ہی لگی لپٹی نہیں، مذہب کے لئے بولا تو ایامن کے ساتھ، مولویوں کے لئے بولا تو ذمہ دارانہ سوچ کے ساتھ، قوم و ملک کیلئے آواز اٹھائی تو بے لوث و خلوص کے ساتھ ، یوں حسن نثار پورے کا پورا میڈیا ہائوس اور صحافت کے وسیع تر کینوس کا تن تنہا علمبردار او ترجمان ثابت ہوا ایسی اکیڈمی کہ جس سے ہر کوئی سیکھنا چاہے کھرا پن اور وہ سبق جو ایک شفاف صحافتی ردار کی علامت ہوتا ہے۔ حسن نثار صحافت کی وہ اکیڈمی ہے کہ جو صحافیوں کی حدود کا تعین کرنا سکھائے۔ وہ اپنی بے باکی کی وجہ سے مرد آہن جیسی اہمیت کہے کو اس قدر اہمیت دیتے کہ بس جو حسن نثار نے کہہ دیا وہی ٹھیک جیسا کہ ابھی پچھلے دنوں ہم سب نے ایک ٹریلر دیکھا کہ وہ عمران حکومت کی کارکردگی پر پھٹ پڑے اور خوب برسے واقعی ان کا رویہ بجا تھا بہت سے لوگوں نے اب حالیہ حکومت پر تنقید شروع کردی تھی۔ خیر جب اس مرد آہن نے آواز اٹھائی تو تمام عوام نے ان کی آواز سے آواز ملا کر ان کی بات سے اتفاق کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان بھی گھبرا گئے کہ حسن نثار نے جو کچھ کہہ دیا وہ ملک و عوام میں اثر انگیز ثابت ہوگا۔ صحافت کی دنیا میں جو معیار حسن نثار کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ان کے الفاظ حکومتی ایوانوں میں تہلکہ مچا سکتے ہیں جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا تھا کہ حکومتی مشینری چلانے میں میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتا ہے اور صحافیوں کی مٹھی میں بند ملکی حالات ہوتے ہیں تو وہ حسن نثار جیسے صحافیوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں کہ وہ کھلے تو ہلچل مچ جائے قوم کی سوچ کے دھارے کو صحافی ہی بدلتے ہیں۔
تازہ ترین