• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
فرانس میں پیلی جیکٹ والوں کے مظاہرے بہت پرتشدد ہوچکے ہیں۔ پولیس کے ساتھ انتہائی پرتشدد ہونے کی وجہ سے مظاہرین درجنوں کی تعداد میں زخمی ہی نہیں بلکہ بہت سارے اپنے مختلف اعضاء سے محروم ہوچکے ہیں جس میں آنکھیں، انگلیاں بھی شامل ہیں۔ ان ہر ہفتے کے روز ہونے والے مظاہروں کو تین ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے جس نے فرانس کے مقتدر ایوانوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ یہ پیلی جیکٹ تحریک کس سمت جائے گی اس کا تو ہم بعد میں جائزہ لیں گے۔ پہلے سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سیاسی ابھار کیونکر ابھرا اور یہ ہے کیا۔ یہ ابتدائی طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافے اور طویل عرصے سے ورکروں کی تنخواہوں میں ٹھہراؤ کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے منظم کی جانے والی تحریک ہے۔ جس کی نہ تو کوئی لیڈر شپ ہے اور نہ کوئی ایک مطالبات کا چارٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مظاہروں میں انتہا پسند دایاں بازو اور انتہا پسند بایاں بازو مشترکہ ایشوز پر اکٹھے ہوگئے ہیں جن کا نہ ماضی مشترک ہے نہ ہی مستقبل۔ ان مظاہروں میں کس قسم کے عناصر متحرک ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بہت سے مظاہرین یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کس گروپ کے ساتھ ہیں۔ یہ پیلی جیکٹ تحریک کیونکہ ایمانوئیل میکرون حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر شروع ہوئی تھی۔ اس میں پیلی جیکٹ کو اس لئے علامت بنایا گیا کیونکہ فرانس میں ہر موٹرگاڑی میں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں پیلی جیکٹ ضرور موجود ہونی چاہیے۔ جیسے عموماً ڈرائیور یا مکینک اس وقت پہنتے ہیں جب وہ کار کا کوئی کام کر رہے ہوں یا اس کی ٹیسٹ ڈرائیو پر ہوں۔ فرانس کی وزارت ٹرانسپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ سے مسلسل مظاہرین کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ابھی بھی کم از کم تعداد ایک لاکھ سے زائد میں ہی گنی جارہی ہے۔ ویسے ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جوں جوں مظاہرے متشدد ہوتے جاتے ہیں کم کمٹمنٹ والے لوگ پیچھے ہٹتے جاتے ہیں۔ ان مظاہروں میں زیادہ تعداد بڑے شہروں کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے۔ عموماً پختہ عمر کے لوگ ہیں جن میں عورتوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ ان میں زیادہ تر آئی ٹی ورکرز، فیکٹری ورکرز، ڈیلیوری ورکرز وغیرہ شامل ہیں۔ طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جس سے ایشو کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ مہنگائی اور ناانصافی پر مبنی ٹیکس سسٹم کے خلاف اٹھنے والی تحریک ہے۔ مظاہرین سمجھتے ہیں کہ صدر ایمانوئیل میکرون صرف مٹھی بھر امیر طبقے کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اب وقت کے ساتھ ان مظاہروں میں دیگر نعرے بھی زور پکڑنے لگے ہیں۔ انتہا پسند دائیں بازو کے لوگ قوم پرستی کے نعرے لگا کر فرانس کو یورپی یونین سے نکلنے پر زور دینے لگے ہیں۔ برطانیہ کی طرح وہاں بھی ایک بریگزٹ طرز کے ریفرنڈم کا مطالبہ کررہے ہیں تاہم لیفٹ اور رائٹ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ صدر ایمانوئیل میکرون کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ حالانکہ گزشتہ برس ہی میکرون نے دائیں بازو کی انتہا پسند مرین لیپن کو شکست دی تھی۔ میکرون نے ورکرز کی تنخواہوں میں 100یورو ماہانہ کا اضافہ بھی کیا ہے لیکن یہ اقدام کارگر نہیں ہو سکا۔ اب ان مظاہروں میں کم پینشن والے لوگ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اس میں دیہی علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ بہتر پبلک سروسز چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ اس سارے بحران کا میڈیا، یہودیوں، یورپی یونین اور فری میسن کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایسا گروپ بھی ان میں ہے جو کم از کم مئی میں یورپی پارلیمنٹ کے الیکشن میں اپنے امیدواروں کو کامیاب کروانا چاہتے ہیں جس کے لیے امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان مظاہروں کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر حکومت ان مظاہرین کے ساتھ کسی سطح پر مذاکرات کرنا چاہے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مظاہرے کسی سیٹلمنٹ کی پوزیشن میں نہیں ہوتے بلکہ اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی مربوط تحریک نہیں جو مقتدر حلقوں کو سامنے بٹھا کر مطالبات کا چارٹر پیش کرسکے یا کوئی باہمی راضی نامہ ہوجائے تاہم اس طرح کے لاکھوں کے مسلسل مظاہرے ہوتے رہنے سے حکومت ضرور غیر مستحکم ہوجائے گی اور زیادہ عرصے متشدد رہنے سے اسے گلی کوچوں تک جانے سے روکا نہیں جاسکتا۔ گوکہ ان کے 80فیصد تک نعرے معاشی ایشوز پر ہیں پھر بھی تنظیمی فقدان کی وجہ سے مظاہرے انارکی کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ صدر ایمانوئیل میکرون کے لئے بڑے امتحان کا وقت ہے کہ وہ مطالبات میں اٹھائے گئے ایشوز کو اپنے ماضی کے سوشلسٹ نظریات کی روشنی میں حل کرتے ہیں یا ڈنڈا پالیسی اختیار کرتے ہیں تاہم فی الحال تو حکومت انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
تازہ ترین