• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تحریر سکوائر کیا ہے، یہ کسی کی تحریر نہیں، عربی زبان میں تحریر کا مطلب ہے آزادی دلانا، اگر غور کیا جائے تو لاہور میں پہلے ہی سے آزادی چوک موجود ہے، بس شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری اور الطاف بھائی لندن ثم پاکستان والے کے اٹھنے کی دیر ہے، پھر یہ لاہور کا آزادی چوک التحریر سکوائر کے روپ میں نیا جنم لے سکتا ہے۔ موسم پاگل ہو گیا ہے، اور ہوائیں سازگار، یہ ہے مطلع سیاست کے موسم کا حال، مزید حال احوال کیلئے جاگیرداروں، وڈیروں، موروثی سیاستدانوں، کرپٹ مافیا والوں، زرداروں، سرمایہ داروں، رسہ گیروں کے محکمہ موسمیات سے رجوع کریں۔ انقلاب ہو یا انتخابات، ان کا سارا دار و مدار عوام پر ہے، اگر عوام دو دو میل لمبی سی این جی قطاروں کو توڑ کر خودکش خاموشی سے باہر نکل آئے تو التحریر اسکوائر پر انقلاب آفرین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، ہر روز کا اخبار مصائب کے انبار لے کر آتا ہے جبکہ خزانہ لوٹنے والوں کو آمد ِبہار کی خبریں مل رہی ہیں کیونکہ وہ پھول گلشن وطن سے چنتے اور ہار بیرون وطن جا کر پہنتے ہیں، وطن کے چمن میں کانٹے رہ گئے ہیں گلاب غائب ہیں۔ دیہی آبادی کو جاگیر داروں، وڈیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ سب سے زیادہ ووٹ وہیں ہیں اور وہاں کے مفلسوں کی جان اُن کے ناجائز مالکوں کے ہاتھ میں ہے، ہمارے تبدیلی کے دعویدار ان کو کسی طرح محفوظ کر لیں اور اب یہ نہ کہا کریں کہ دیکھو اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ ووٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لندن سے لے کر لاہور تک اور غریبان وطن کے گلے سے ایک ہی صدا آ رہی ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
#####
چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے ، شہباز شریف جب طبلے کے ساتھ گائیں گے تب تعریف کروں گا۔ شہباز شریف نے کنیئرڈ کالج کی تقریب میں گانا گایا۔ چھوٹے چوہدری صاحب بھگوڑے بینڈ ماسٹر کے بینڈ پر پرسوں بڑے چوہدری صاحب کی سنگت میں دوگانا گاتے رہے، تب اور اب تک کسی نے تعریف نہ کی، شاید اسی قدر ناشناسی کا درد لئے اب یہ اعتراض ہے کہ شہباز شریف نے قوم کی بیٹیوں کے ساتھ مل کر گیت کیوں گایا اور اب وہ گلوکاری چھوڑ کر زرداری کے طلبہ نواز بن گئے ہیں تو ان کی کیا تنزلی نہیں ہوئی؟ چھاننی اگر لوٹے سے کہے تم میں تو دو سوراخ ہیں تو کیا ایسا گانا کوئی سنے گا، دل دل پاکستان گانے کی چوہدریوں کو کبھی توفیق نہ ہوئی، اب ایک گرتی دیوار کے سہارے جو بڑے نے چھوٹے چوہدری کو کھڑا کر دیا ہے، اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے بہت خوش ہیں، تو ان کے پاس کوئی سیٹ بھی ہے یا صرف ایڈجسٹمنٹ ہی ایڈجسٹمنٹ ہے، ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔ اب وہ زمانہ گیا کہ مٹی پاؤ سرکار یہ کہہ سکے پنجاب آدھا تیرا آدھا میرا اور یہ قوم تو جاہلوں کی ہے، پرویز الٰہی بینڈ پر گانے کے عادی ہیں وہ بھلا دیسی طبلے کو کیا جانیں البتہ وہ اس دن کا انتظار کریں جب ضمنی انتخابات کی طرح ان کا اپنا طبلہ بج جائے ، اور اسلام آباد میں طبل۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ڈپٹی وزیر اعظم کے نقار خانے میں بیٹھ کر زرداری سے کہیں
ڈفلی والے ڈفلی بجا میرے گھنگرو بلاتے ہیں آ!
لیکن اب مشکل ہے کہ ان کے سیاسی مجرے کو کوئی ”ویل“ دے کیونکہ پہلے تو پی ٹی آئی کا ڈر تھا اب تو منہاج القرآن اور ایم کیو ایم کا سنگھٹ ہو چکا اور بس مارچ سے پہلے مارچ کی دیر ہے۔ سپیدئہ انقلاب نظر آنے لگا ہے۔
#####
چوہدری نثار فرماتے ہیں : طاہر القادری کا بلبلہ عمران خان سے زیادہ عارضی ہے۔ چوہدری نثار کے جاتی عمرہ نثار کہ اسے چوہدری صاحب جیسا ترجمان وکیل کہاں سے ”لبھا“ ہے، ایسے شخص کو جوش ملیح آبادی نے منکر بدیہیات کے لقب سے نوازا ہے۔ وقت چیخ رہا ہے کہ ماڈل ٹاؤن سے اٹھنے والی آندھی سے لندن کی سیاہ آندھی بھی آن ملی ہے اور سونامی اس کے علاوہ موجود ہے۔ یہ سب خطرے فقط بلبلے ہیں دراصل سب اچھا ہے کا ترجمہ ہے جو یہ بانکے چوہدری نثار میاں صاحبان کی خدمت میں پیش کر کے ان کو پیش قدمی سے روکے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو تو اب یہ فارسی مقولہ بھی زبانی یاد ہو گیا ہے کہ ”آزمودہ را آزمودن خطا است“ (آزمائے ہوئے کو آزمانا غلطی ہے) نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان پہلے بلبلہ ہی تھا، پھر وہ قلزم بن گیا۔ اگر 18کروڑ قلزم شیخ الاسلام نے یکجا کر دیئے تو چوہدری مٹی ہٹاؤ اپنے لیڈروں کو کونسا نسخہ اپنی قرابا دین میں سے ڈھونڈ کر دیں گے۔ اگر مسلم لیگ نون، صرف نونی سیاست پر اکتفا نہ کرتی ساری لیگوں کو ساتھ ملا کر چلتی تو ان کو تتی ہوا بھی نہ لگتی، مگر دیر آید، درست نہ آید کی صورت اختیار کر گیا۔ مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت ہے مگر بلبلوں کا ہجوم بھی کم نہیں اور واضح رہے کہ انسانی بلبلہ تو انسان جنم دیتا ہے، اسے پھونک یا تنکا مار کر توڑا نہیں جا سکتا، تنکے کو بھی تنکا نہیں سمجھنا چاہئے، یہ تو جیتی جاگتی تازہ دم اور قوم کے تازہ زخموں سے رستا خون لے کر چلنے والی جماعتیں ہیں۔ ایم کیو ایم ایک قومی اور غریبوں کی جماعت ہے اور شیخ الاسلام کے پاس جبہ بھی ہے ،کلاہِ قادری بھی۔ انہیں بلبلہ جان کر بے جان سمجھنا چوہدری نثار کا بلبلہ ہے جو کسی وقت بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو سکتا ہے۔
#####
سچ کہا ہے کسی نے محبت روگ بن جائے تو اس کا چھوڑنا اچھا۔ وینس کے تاریخی پل ریالٹو کو محبت بھرے اتنے تالے لگ چکے ہیں جن کے وزن سے اس کے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ 2006ء میں وینس میں ایک ایسا رومانوی ناول لکھا گیا کہ جس کو پڑھنے کے بعد لڑکے لڑکیوں نے اس پل سے اپنے اپنے نام کے بے شمار تالے باندھ کر چابیاں دریا میں پھینک دی ہیں، اور اب یہ محبت جسے انسان تو اٹھا لایا مگر یہ پل آخر پل ہے کوئی ”وچولن“ نہیں کہ اتنے سارے پیار بھرے تالوں کا بوجھ سہار سکے۔ پیار کے بارے تو حضرت میر بھی کہہ گئے تھے
جس نے سب پہ بار کیا میر#
اس کو یہ ظالم اُٹھا لایا
پیار کرنا چاہئے، یہ اچھی چیز ہے، اس میں کھانے پینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ غالب نے شاید میر کی طرح پیار نہیں کیا تھا ورنہ یوں نہ کہتے
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
ریالٹو نامی پل بیچارے نے دریا سے پیار کیا شاید اسے آج یہ سزا مل رہی ہے، کہ ہزاروں عشاق اس سے اپنا مرادوں بھرا تالہ باندھنے کے لئے ہجوم در ہجوم آ رہے ہیں۔ سنا ہے حکومت نے ان لڑکے لڑکیوں کے تالے باندھنے پر تالہ لگا دیا ہے اور اب وہ سارے تالے کھولے جا رہے ہیں، جوتالے نہیں پیار بھرے دل ہیں
شیشہ نہیں یہ میرا دل ہے دیکھو دیکھو، توڑو نا!
ویسے زرداری چاہیں تو ان تالوں کا ٹھیکہ لے سکتے ہیں بلکہ وینس کی حکومت ان کی محبت پرستی کے احترام میں یہ سارے تالے مفت دے دے گی اور یہ منوں لوہا یا ہزاروں تالے محبت کے تالے ہیں شایدسیاست میں بھی کام آجائیں۔ ایک تالہ بے شک خالی خزانے کو بھی لگا دیں۔
تازہ ترین