• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو میں اپنے خالقِ حقیقی کا شکر گزار ہوں کہ میرے دل سے نکلنے والی بات میرے ہم وطنوں کے دلوں میں اتر رہی ہے۔ اس کے بعد ان کرم فرمائوں کا دل کی گہرائیوں سے ممنون۔ جنہوں نے فون پر بات کی، ایس ایم ایس کیا اور فیس بک پر اظہارِ خیال کیا۔ درد دلوں میں اُتر رہا ہے۔

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

عمر کے اس حصّے میں یہی تسکین کا باعث ہوتا ہے کہ آپ کی بات دوسرے تک پہنچ جائے۔ سب پڑھنے والے دوبارہ تحریک پاکستان چلانے کے لیے تیار ہیں۔ سب اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ حکمرانوں اور قیادت کے دعویداروں کو اپنی ڈگر پر چلنے دیا جائے، ان سے اصلاحِ احوال کی امید نہ رکھی جائے کیونکہ ان میں سے بہت کم ہیں جو دوسروں کے بارے میں سوچتے ہوں۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہم وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ہمیں کرنا چاہئے۔ پہلے تو ہم میں سے ہر ایک کو یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک کو کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ وقت کے ایک خاص نکتے پر ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کردار کی حقیقت، ہیئت جاننا ہی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ جب ہم میں سے کوئی اپنی زندگی کا مقصد نہیں جان پاتا، اپنی اہمیت نہیں سمجھتا تو اس مقام پر ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے اور ترقی کا عمل رُک جاتا ہے۔

جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

پیچھے رہ جانے والی قوموں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ فرد کو اپنی اہمیت سے بے خبر کر دیا جاتا ہے خاص طور پر جاگیردارانہ معاشروں میں اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تمہیں نسل در نسل اسی طرح چاکری کرنی ہے۔ سرمایہ دارانہ اور صنعتی معاشروں میں بھی فرد کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ سب کچھ مشین کو کرنا ہے۔ تم تو مجبورِ محض ہو۔ اسی طرح رجعت پسندانہ مذہبی معاشروں میں بھی انسان کو مایوسیوں کا شکار کیا جاتا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، جو تقدیر میں لکھا ہے وہی ہونا ہے۔ یہاں یہ بھی باور کروا دیا جاتا ہے کہ اگر تمہارے پاس سرمایہ نہیں ہے تو یہ تمہارا مقدر ہے۔ اگر کسی کے پاس زندگی کی سب آسائشیں ہیں تو یہ اس کا مقدر ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو یہ ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔

معاشرہ فرد کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ ایک سلسلہ ہے۔ افراد اس کی کڑیاں ہیں۔ کوئی کڑی کہیں بھی کمزور ہے، فعال نہیں ہے تو پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے، فرد اور ملّت دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

اقبال نے ہی کہا ہے

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

مجھے بہت تسکین ہوتی ہے کہ جب میری بات کسی کے دل میں اُتر جاتی ہے اور وہ کچھ کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے۔ ہماری تو اپنی تعلیمات ہیں ہی حرکت کے لیے۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ اعمال کا دار و مدار ہی نیت پر ہے۔ ہمارے حکمران طبقے، اصل حکمران اور علماء سب ہمیں یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں ہیں۔ جو کچھ کرنا ہے چند خاندانوں کو کرنا ہے۔ حکمرانی چند خاندانوں کا حق ہے۔ ہمیں یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ سوچنا بھی چند خاندانوں کا حق ہے۔

انسان اگر اللہ تعالیٰ کا نائب ہے تو وہ سب انسان ہیں۔ ہر فرد اللہ کا بندہ ہے۔ یہ نیابت چند مخصوص انسانوں کو عطا نہیں کی جاتی ہے۔

آج کل ہم سب خوش ہیں کہ ہم پر دیرینہ دوستوں کی عنایت بڑھ گئی ہے۔پہلے ہم چین کی عنایات کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ جو کچھ کرنا ہے چینیوں کو کرنا ہے۔ ہمیں تو صرف سوشل میڈیا پر تبصرے کرنا ہیں۔ ٹاک شوز دیکھنے ہیں۔ کام تو چینی کرتے رہیں۔ اب ہم خوش ہو رہے ہیں کہ پیسوں کی بارش ہو گی۔

ریکوڈک ہماری راہ تک رہا ہے۔ ریگ زاروں میں سیّال سونا ہمارا منتظر ہے۔ پہاڑوں میں قیمتی پتھر ہماری طاقت بننے کے لیے بے تاب ہیں۔ سوئی ہماری اپنی زمینوں میں گم ہو گئی ہے۔ ہم اسے خلیج، بیجنگ میں ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس پاکستان کی سرزمین میں سب کچھ دیا ہوا ہے، سمندروں کے نیچے، پہاڑوں کے سینوں میں، صحرائوں کی تہوں میں۔ سونا بھی ہے، تیل بھی، گیس بھی، قیمتی پتھر بھی اور ہمارے بیٹوں کے دست و بازو میں وہ توانائیاں ہیں جو یہ چھپے خزانے برآمد کر سکتی ہیں۔ یہ ہمارے ہی نوجوان محنت کش ہیں جنہوں نے سعودی عرب کو امیر ترین ملک بنایا ہے۔ جنہوں نے متحدہ عرب امارات کو یہ جولانی اور یہ فراخی دلوائی ہے۔ جنہوں نے کویت، قطر اور مسقط کو سونا اگلتی زمینیں بنا دیا اور اس سے پہلے مانچسٹر، لندن میں کس نے برطانیہ کو کساد بازاری سے نکالا۔ آکسفورڈ اور ایجنٹ اسٹریٹوں کی عمارتوں میں کس کا خون بسا ہوا ہے۔ اب ٹورنٹو، کیلگری، ایڈمنٹن کو کون مضبوط بنیادیں فراہم کر رہا ہے۔

ضرورت دوست ملکوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نہیں ہے بلکہ اپنے نظام کو بدلنے کی ہے۔ ہم ایسا سمندر بن چکے ہیں کھارے پانی کا کہ اس میں ہمارے دریائوں کا میٹھا پانی گر کر ضائع ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ مدتوں بعد اچھے فیصلے کر رہی ہے لیکن معاشرے سے بے چینی ختم نہیں ہو رہی ہے۔ یونیورسٹیوں سے نوجوان ڈگریاں لے کر معاشرے کا حصّہ بن رہے ہیں۔ دینی مدارس سے ہر سال ہزاروں طلبہ علم کا نور لے کر عملی زندگی میں شامل ہو رہے ہیں مگر ہمارا معاشرہ تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔ دوسری طاقتوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے پہلے بھی کچھ نہیں ملا، اب بھی کچھ نہیں ملنے والا۔ ہمیں اپنے گرد و پیش کو بدلنا ہے۔ اس احساس اور یقین کی ضرورت ہے کہ ہم غریب نہیں ہیں۔ ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ ہماری زمین بھی مالا مال ہے، ذہن بھی۔ جب ہمارے نوجوان دوسرے ملکوں میں جاکر ان کی تقدیر بدل سکتے ہیں تو وہ اپنی سر زمین کی قسمت کیوں نہیں بدل سکتے۔ انہیں وہ سازگار ماحول ملنا چاہئے جو دوسرے ملکوں میں ملتا ہے۔

تحریک پاکستان بے لوث لیڈروں کی قیادت میں چلی۔ غریبوں نے ہی چلائی تھی۔ اب تحریک استحکام پاکستان بھی غریب ہی چلا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ سازگار لمحہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ سی پیک کے ذریعے اب سعودی عرب کے وسیلے سے جو فنڈز ملنے والے ہیں ان کا درست استعمال اپنے پوشیدہ خزانے دریافت کرنے پر ہی ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹیاں صحیح رہنمائی کر سکتی ہیں کہ درست استعمال کے کیا طریقے اور کیا خطوط ہوں گے۔ اس میں پاکستان کی ساری وحدتوں یعنی پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان، گلگت، فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو شریک کیا جائے۔ ایک صبح حسین ہماری منتظر ہے۔

تازہ ترین