• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کربدلے اور جنگ کے باتیں کرنا بند کرو،سابق بھارتی فوجی حکام

کراچی(رفیق مانگٹ) بھارت کے سابق فوجیوں نے پلوامہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر بدلے اور جنگ کی باتوں اوربھارتی نیوز چینلز کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کربدلے اور جنگ کے باتیں کرنا بند کرو،دوسری طرف حکمران جماعت نے تمام وزیروں،ترجمانوں اور ریاستی یونٹس کو ہدایت کی ہے کہ پلوامہ حملے کو سیاسی نہ بنایا جائے اور پاکستان سے جنگ کرنے کا کوئی بیان نہ دیا جائے،کانگریس نے بھی محتاط رویہ اپنا لیا ہے، کہ جنگ کی باتیں کرنے والے افغانستان میں امریکی انخلاس سے سبق سیکھیں۔ تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کا مقصد بھارت کی طرف سے ملٹری ایکشن لینے پر اکسانا ہے تاکہ دونوں ممالک کا تنازع بڑھ جائے اور امن ختم ہوجائے، جنگ کی باتیں کرنے والے افغان جنگ سے سبق سیکھیں جہاں امریکا ہزاروں جانیں اور چار ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد طالبان سے سیاسی معاہدہ کرکے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔بدلے کی باتیں کرنے والے فلم اڑی سیکوئیل دیکھنے کے بعد مطالبہ کررہے ہوں گے لیکن حقیقت میں نہیں جانتے کہ سرحد پار اصل میں کیا ہوا ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ بھارتی سیکورٹی فورسز پر حملے کے بعد بھارتی حکمرانوں اور میڈیا نے پاکستان کو مورد الزام ٹہرانا شروع کردیا،سوشل میڈیا پر جنگی فضا بنائی جارہی ہے اور عا م شہریوں کو اکسایا جارہا ہے کہ نئی دہلی کو اس حملے کا بدلہ لینا چاہیے،وہی سابق بھارتی فوجی افسران ایسے عناصر کو سختی سے جواب دے رہے ہیں کہ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کربدلے اور جنگ کے متعلق گفتگو بند کرو۔رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کو خون کے پیاسے کے طور پر ابھرتے دیکھا گیا ہر کوئی پاکستان کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے، نامعلوم ٹویٹس سے ٹی وی میزبانوں تک سب اسی میں لگے ہیں، لیکن ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اس جنگ کو سرانجام دیں گے،ان فوجیوں کے بارے کیا کہیں گے جن کے بل بوتے پر یہ سب باتیں کررہے ہیں،سوشل میڈیا پر متعد د سابق فوجیوں نے ان خیالات برعکس رویہ اپنایا۔ایک فوجی نے ٹوئٹر پرلکھا،وہ وہاں تھا اور نشانہ بن گیا، میں نے ساتھی کے جسم کے حصے اکھٹے کیے، اسے اس کے گھر لے گیا جہاں گھر کے چھ افراد ہیں، میں نہیں جانتا کہ کس کی ماں کے حصے میں کونسا حصہ آیا،سر یا دل اور اس کا کیامذہب یا نسل تھی، میری روح بھی اس کے ساتھ چلی گئی،بند کروآرام دہ کرسیوں پر انتقام اور جنگ کی باتیں ، دہشت گردی سے لڑو ،اگر لڑ سکتے ہو۔کرنل ریٹائرڈ ڈی کے پیلے نے لکھا کہ جنگ میں جانا کوئی غیرقانونی نہیں لیکن جنگ کو کسی مسئلے کا حل سمجھنا غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے، پرسکون رہیں عقلمند لوگ تناز ع کے حل کا راستہ تلاش کریں گے، جنگ کی قیمت بچے،بیوائیں اور والدین ادا کرتے ہیں۔میجر ریٹائرڈ ڈی پی سنگھ نے فیس بک پرنیوز چینل کے رویے کے متعلق لکھا کہ کچھ دن بعد یہ اپنے کاروبار پر لگ جائیں گے ان کا یہ افراتفری پھیلانا بھی ان کا بزنس ہے، سیاسی جماعت ہو، میڈیا ہاؤس یا عام پبلک، ان میں سے کوئی بھی زندگی اور اعضا کھونے کا درد نہیں سمجھ سکتا۔ایک فوجی جان دینے کو تیار رہتا ہے لیکن سوال کہ کب تک، ہمیں ایسے پورے نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے ژی نیوز کے پروگرام میں بھی اسی طرح کے خیالات کا ذکر کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوجی مر جائے اور اس کی بیوہ پنشن اور واجبات کیلئے دروازے کھٹکٹاتی رہے، زندگیوں سے مذاق نہ کریں اور فوجیوں کو نہ ماریں، اپنے خودغرضانہ کاروبار کیلئے جذبات سے نہ کھیلیں، فوج جانتی ہے کہ کب کیا کرنا ہے،آپ لوگوں کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم کیا کریں۔بھارتی اخبار کے ایک مضمون میں کہا گیا کہ کوئی بھی عقلمند جنگ کی بات نہیں کرے گا، بدلے کی باتیں کرنے والے اڑی سیکوئیل دیکھنے کے بعد مطالبہ کررہے ہوں گے لیکن حقیقت میں نہیں جانتے کہ سرحد پار اصل میں کیا ہوا۔ وہ اپنے محفوظ گھروں میں بیٹھ کر کوئی ناول پڑھ کر اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ پلوامہ حملے پر حکمران جاعت محتاط رویہ اپنا رہی ہے،پارٹی رہنماؤں سے کہا گیا کہ متاثرہ خاندانوں سے ملیں لیکن جنگ کی باتوں سے گریز کریں۔پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ قیادت مقبوضہ کشمیر کے گورنر سیتیا پال کے اس بیان سے پریشان ہے کہ بھارت کی طرف سے انٹیلی جنس ناکامی تھی۔ عوامی غصے کے حوالے سے پارٹی ہیڈکوارٹر میں مرکزی وزیر خزانہ اور وزیر دفاع نے پارٹی ترجمانوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی حملے کے متعلق جنگ جوئی یا سیاسی بیان نہیں دے گا ،اسے سختی سے حساس طریقے سے ہینڈل کیا جائے،کانگریس بھی محتاط ردعمل دے رہی ہے، پی جی پی نے تمام پارٹی پروگرام کینسل کردئیے، اور کہا کہ اس ایشو پر کوئی سیاست نہیں ہوگی ،تمام مرکزی وزیروں سے کہا گیاکہ ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات میں شریک ہوں۔ بی جے پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہمیں ریاستی یونٹس کو یہ پیغام دینے کا کہا گیا کہ ریاست میں سے کوئی بھی پاکستان سے جنگ کے مطالبے کا بیان نہیں دے گا۔ عوامی غصے کی سمت کو پاکستان کی طرف ہونا چاہیے لیکن اسے حکمران جماعت کی طرف نہیں ہونا چا ہیے ۔ حکمران جماعت کے رہنماوں کا ماننا تھا کہ ملک میں ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں کہ اس حملے کا جواب کیا ہونا چاہیے۔کسی کا سرجیکل اسٹرائیک کی طرف بھی وززن نہیں۔ممبئی مرر نے لکھا کہ پلوامہ حملے کا مطلب مستقبل میں امن نہیں، اس حملے کا مقصد یہی ہے کہ بھارت جلد بازی میں کوئی ملٹری ایکشن کرے جو دونوں ممالک میں تنازع کو ہوا دے دونوں اطراف جنونی اور قوم پرست ایسی پچ تیار کریں ،کہ عوام،معاشرہ،حکومت،انٹیلی جنس آپریٹس اور فوج سب اسی میں کود پڑیں اور ہم اس پر یقین ختم کردیں کہ بھارت اور پاکستان کے لوگ جنگ نہیں امن چاہتے ہیں۔کشمیر مزید دلدل میں دھنس جائے گا،اخبار نے کہا کہ افغان جنگ سے سبق سیکھا جائے جہاں امریکا سترہ سال بعد سیاسی معاہدے پر پہنچ رہا ہے ہزاروں جانیں اور چار ٹریلین ڈالر خرچ کرکے بھی امریکا کو کیا ملا، چار ٹریلین ڈالر کا مطلب بھارت کی مجموعی آمدنی سے دگنا اور اگر افغان جنگ میں دیگر اخراجات بھی ڈالیں تو یہ رقم آٹھ ٹریلین تک جا پہنچتی ہے۔

تازہ ترین