• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہیں معلوم کہ کب واپس جائونگا،پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر

لاہور(خالد محمود خالد)پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے نئی دہلی میں بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ پاکستان کب واپس جائیں گے۔ بھارتی دفتر خارجہ میں اہم میٹنگ میں شرکت کے بعد انہیں کچھ رپورٹر ز نے گھیر لیا لیکن انہوں نے اگلی میٹنگ کا بہانہ بنا کر وہاں سے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ خودکش حملے کے بعد بھارتی حکومت نے اجے بساریہ کو اچانک نئی دہلی بلا لیا ہے ۔اجے بساریہ کے نئی دہلی جانے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ویانا کنونشن کے تحت کسی بھی ملک کے سفیر یا ہائی کمشنر کو جب پاکستان سے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ پاکستان کے دفتر خارجہ کو تحریری طور پر مطلع کرنے کے بعد جاتا ہے ۔بھارتی ہائی کمشنر نے دفتر خارجہ کو لاہور جانے کے بارے میں مطلع کیا لیکن رات کو اپنے دفتر سے اٹھ کر سیدھا ہوائی اڈے گئے اور وہاں سے دبئی روانہ ہو گئے جب کہ بھارت کے دفاعی اتاشی سنجے وشوا راوبھی جمعہ کی رات 8بجے واہگہ بارڈر کے راستے بھارت چلے گئے۔بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے جمعہ کو تین روزہ دورہ پر لاہور آنا تھا جہاں انہوں نے مختلف طبقوں کے سرکردہ افراد سے ملاقاتیں طے کر رکھی تھیں جب کہ انہوں نے فیض میلہ میں بھی شرکت کرنی تھی۔ ان کی اچانک بھارت روانگی پاکستان پر بین الاقوامی دبائو کو بڑھانے کی ایک کوشش ہے جس میں بھارت کو کامیابی ملتی نظر نہیںآ رہی۔ پلوامہ حملہ کے بارے میں اب بھارت میں بھی شکوک سامنے آرہے ہیں۔ ایک اخبار کا کہنا ہے کہ کشمیر میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے اعلیٰ حکام نے ایک ہفتہ قبل بھارت وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا کہ 78 گاڑیوںکا قافلہ جس میں 2500جوان سوار ہوں گے ان کی سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کئے جائیں یا پھر ان کے لئے ہوائی جہاز فراہم کیا جائے کیونکہ برف باری کے باعث سڑکیں بند ہیں جب کہ کشمیر میں حالات سازگار بھی نہیں ہیں ۔ لیکن بھارتی دفتر داخلہ نے سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی اس درخواست کو نظرانداز کرتے ہوئے کوئی جواب نہ دیا۔اخبار نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ پلوامہ حملہ کامنصوبہ بھارت کے اندر ہی تیار کرد ہ لگ رہا ہے جس میں ایک مسلمان شخص عادل ڈار جس کا تعلق کشمیر سے ہی تھا اور اس کے بارے میں اطلاع یہی ہے کہ وہ اگست 2017سے بھارتی حکومت کی قید میں تھا اس کی خودکش حملے کی تیاری کے حوالے سے ویڈیو بنا کر ریلیز کی گئی اور اگلے روز خودکش دھماکہ ہو گیا۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے میں300 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا جو پاکستان سے لایا گیا۔ اتنی بھاری مقدار میں بارودی مواد حملے کی جگہ پر گہرا گڑھا بنا دیتاہے اور شاید وہاں زمین سے پانی بھی نکل آتاجب کہ حملے والی جگہ پر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرا یہ کہ جموں جیسے حساس علاقے میں جہاں ہر سو میٹر پر چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیںجب کہ کشمیر میںسکیورٹی فورسز کے قافلوں کی گزر گاہیں تو ہر طرف سے کیموفلاج کی جاتی ہیں لیکن 300کلو گرام بارودی مواد والی گاڑی کو نہ روکنا صرف منصوبہ بندی کے تحت ہی ہو سکتا ہے۔مزید یہ کہ پاکستان سے کتنے افراد کتنے عرصہ میں اتنا زیادہ مواد لے کر سرحد سے دور پلوامہ میں پہنچے ۔ کیا لائین آف کنٹرول یا بین الاقوامی سرحد پر بھارتی نگرانی صرف ایک کاغذی کارروائی ہے جو 300کلو گرام مواد لے کر جانے والے افراد کو نہ روکا جا سکا؟ بھارت کی طرف سے پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑنا وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کی نظر میں آئندہ انتخابات میں ڈوبتی کشتی کو بے حد سہارا دینے کا باعث بن گیا ہے۔ کرتار پور راہداری کے کھولے جانے کا کریڈٹ پاکستان کو ملنا بی جے پی کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا ۔مودی سرکار نے مجبوری کے عالم میں راہداری کھولنے کا اعلان تو کر دیا تھا لیکن وہاں پر تعمیراتی کاموں میں تاخیر اور پاکستان کے ساتھ تمام معاملات کو فائنل کرنے کے لئے بات چیت کی تاریخ ایک سے ڈیڑھ ماہ بعد دینا بھی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہی تھی۔ دوسری طرف بھارتی پنجاب میں کانگریس کے صوبائی وزیر نو جوت سنگھ سدھو کی مقبولیت سے بھارت بھر میں سکھوں کے ووٹ کانگریس کوڈالے جانے یقینی تھے۔لیکن پلوامہ حملے کی منصوبہ بندی سے مودی نے جو فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی طرف سے پاکستان کو دئیے جانے والے ایم ایف این کا درجہ جمعہ کے روز واپس لے لیا گیا جس سے پاک بھارت ٹریڈ میں واضح کمی آنے کا اندیشہ ہے جب کہ اس کمی کا اصل نقصان بھارت کے تاجروں کو ہی ہو گا۔ پاکستان بھارت سے زیادہ تر سبزیاں ہی منگوا رہا ہے جب کہ بھارت کے بڑے تاجر پاکستان سے جپسم، سیمنٹ، ربڑ۔ مصالحہ جات اور شیشہ کی بڑی مقدار منگو ارہاہے جن کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ کیا مودی اپنے ملک کی تاجر برادری کی دشمنی مول لینے کی پوزیشن میں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کرتار پور راہداری کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تمام بات چیت معطل کئے جانے کا امکان ہے جس سے راہداری کی تعمیر کا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی نقصان مودی سرکار کا ہی ہوگا۔
تازہ ترین