• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل معروف دانشور پرویز ہود بھائی نے سوال اُٹھایا کہ وہ بنگالی جنہیں ہم ’’نالائق‘‘ اور ’’کاہل‘‘ کہتے تھے، ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے کیسے نکل گئے؟ ہمیں اپنے پاکستان کا دیگر ممالک سے موازنہ کرنے کا بہت شوق ہے، کبھی بھارت سے تقابل کرتے ہیں، کبھی جاپان کی مثالیں دیتے ہیں تو کبھی ملائیشیا اور سویڈن کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ’’چھوٹے بھائی‘‘ کی ترقی کا راز پالیں تو حالات سنور جائیں۔ قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے جب کبھی مشرقی پاکستان کے استحصال اور محرومیوں کی بات ہوتی اور یہ اعتراض کیا جاتا کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی میں بنگالیوں کا تناسب بہت کم ہے تو ہمارے مقتدر حلقے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ یہ ناٹے قد کے کالے کلوٹے بنگالی ہیں ہی نکمے اور کام چور تو ہم کیا کریں۔ یہ لوگ میرٹ پر پورا نہیں اترتے، ان کیلئے کوٹہ مقرر کرنا پڑتا ہے، پھر بھی یہ محرومیوں کا رونا روتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مچھلیاں پکڑنے کو بنیادی روزگار کی حیثیت حاصل تھی، اس کا تمسخر اڑایا جاتا۔ چاول کھانے کی روش پر پھبتیاں کسی جاتیں۔ افزائشِ نسل سے متعلق لطیفہ گوئی ہوتی۔ تکلف برطرف، اب ہم خود لطیفہ بن گئے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کل تک جس قسم کی باتیں بنگالیوں سے متعلق کی جاتی تھیں، آج کل اسی طرح کے اعتراضات دوسری قومیتوں کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں، بہرحال، یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر پھر کسی کالم میں تفصیل سے بات ہو گی۔

بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام اور فوجی مداخلت نے ملکی ترقی کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی اور پھر حسینہ واجد کی حالیہ منتقم مزاجی نے بھی حالات بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا مگر اس کے باوجود دنیا بھر کےمعاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معاشی اعتبار سے بنگلہ دیش بہت جلد ایشین ٹائیگر بننے جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو 7.8فیصد ہے یعنی بھارتی جی ڈی پی گروتھ ریٹ 8فیصد کے قریب ترین جبکہ ہمارے ہاں شرح نمو 5.7فیصد سے کم ہوکر 5.2فیصد پر آ چکی ہے اور توقع کی جارہی کہ مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی گروتھ ریٹ لڑھکتے ہوئے 4.5تک گر سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر 32بلین ڈالر کو چھو رہے ہیں جبکہ منت سماجت سے اُدھار لی ہوئی رقوم کے باوجود پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 8ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور کپاس ہمارے ہاں سب سے بڑی فصل تصور کی جاتی ہے اس کے باوجود بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور برآمدات کے میدان میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم گزشتہ چند برس میں کم ہونے کے باوجود 36ارب ڈالر ہے جبکہ ہم بمشکل 25ارب ڈالر کی مصنوعات بیچ پاتے ہیں۔ ہم سر کے بالوں سے پائوں کے ناخنوں تک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور نئے قرض لیکر مبارکبادیں وصول کرتے پھرتے ہیں۔ آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ہر پاکستانی شہری 974ڈالر کا مقروض ہے جبکہ بنگلہ دیش میں فی شہری قرضوں کا تناسب 434ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کی کرنسی مستحکم ہے اور ایک بنگالی ٹکہ پاکستانی 1.66روپے کے برابر ہے۔ ڈالر کا نرخ ہمارے ہاں 138روپے جبکہ بنگلہ دیش میں 84ٹکہ ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت کا موجودہ حجم 180بلین ڈالر ہے جبکہ آئی ایم ایف سمیت تمام مالیاتی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق2021 تک بنگالی معیشت کا حجم322 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ بنگلہ دیش بننے سے پہلے بنگالیوں کا یہ طعنہ بھی دیا جاتا تھا کہ انہیں تو افزائشِ نسل سے فرصت نہیں۔ 1951ء کی مردم شماری کے مطابق مشرقی پاکستان کی آبادی 4کروڑ 20لاکھ جبکہ مغربی پاکستان کی آبادی 3کروڑ 37لاکھ تھی۔ اسی لئے ہمارے رہنمائوں نے بنگالیوں کو بوجھ سمجھتے ہوئے گلے سے اتارنے میں ہی عافیت جانی لیکن اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی 16کروڑ 50لاکھ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کے اعتبار سے پاکستان کے حالات بنگلہ دیش سے بدتر ہیں۔ بنگلہ دیش اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے اعتبار سے بھی پاکستان سے آگے نکل چکا ہے یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اوسط عمر 72.5سال جبکہ پاکستانیوں کی اوسط عمر 66.5برس ہے۔

قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے ہمارے ہاں بنگالیوں کو کم تر سمجھا جاتا تھا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم نے انہیں ’’چھوٹا بھائی‘‘ قرار دیدیا لیکن امر واقع یہ ہے کہ اس ’’چھوٹے بھائی‘‘ نے دور اندیشی اور حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتصادی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں ’’بڑے بھائی‘‘ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ’’چھوٹے بھائی‘‘ کی ترقی کا راز کیا ہے؟ تمام وجوہات اور اسباب تو طویل بجث کے متقاضی ہیں، اس لئے میں بنیادی نکات تک محدود رہوں گا۔ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا سفر 2006ء میں شروع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے ہاں دہشت گردی اور توانائی بحران کے سبب حالات خراب ہو رہے تھے اور بنگلہ دیش میں گارمنٹس انڈسٹری کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا تھا۔ مستقبل میں بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری پھلنا پھولنا شروع ہوئی تو پاکستان کے صنعت کاروں نے بھی بنگلہ دیش کا رُخ کر لیا۔ بنگلہ دیش کی 36بلین ڈالر کی برآمدات میں گارمنٹس کا حصہ 81فیصد ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش چین کے بعد گارمنٹس برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ معاشی ترقی کے اس سفر میں ڈاکٹر محمد یونس کے گرامین بینک کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس نے بیروزگاروں کو نئی زندگی شروع کرنے کے لئے آسان شرائط پر چھوٹے قرض دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان میں بھی مائیکرو فنانس کا کاروبار عروج پر ہے لیکن بہت زیادہ شرح سود اور کڑی شرائط کے باعث غریب آدمی کا خون چوسنا اس کی اولین ترجیح ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے اگاڑی ریاست بننے کے لالچ میں اپنے ہاں شدت پسندی اور انتہا پسندی کو نہیں پنپنے دیا۔ حسینہ واجد کے ہی دور میں چند برس قبل انتہا پسندی کی ایک لہر اُٹھی لیکن اسے سختی سے کچل دیا گیا۔ چوتھی اور آخری وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش افزائش نسل کے آگے بند باندھنے میں کسی حد تک کامیاب رہا اور ہم نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بنگلہ دیش میں آبادی میں اضافے کی شرح 1.1فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 2فیصد ہے۔ جب بچوں کی شرح پیدائش معاشی شرح نمو سے زیادہ ہو تو کوئی ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟

تازہ ترین