• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودیہ سے غلط فہمیاں دور کرنیکا کریڈٹ جنرل باجوہ کو ہے، طاہر اشرفی

کراچی (ٹی وی رپورٹ) مولانا طاہر اشرفی نے کہا ہےکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان غلط فہمیاں دور میں کرنے کریڈٹ جنرل باجوہ کو جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں واشنگٹن سے تجزیہ کار کامران بخاری اور انصار الاُمہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خلیل بھی شریک تھے۔ سلیم صافی نے اپنے تمہید میں کہا کہ پورے پاکستان میں جشن کا سماں ہے یقینا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا باب کھل رہا ہے لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے موجودہ تعلقات کی ہیت کو ہم اگر عالمی اور علاقائی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید صحیح نتیجہ تک پہنچیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ اس وقت امریکا مڈل ایسٹ میں کیا چاہتا ہے امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کس ڈگر پر ہیں اور اس خطہ میں اس وقت پاکستان کا کردار کیا ہے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک پاکستان سے کیا چاہتے ہیں اور خود پاکستان مڈل ایسٹ میں کیا چاہتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات اور ایران کیساتھ عرب ممالک سے تعلقات اس وقت کس نوعیت کے ہیں اور اس حوالے سے امریکا کے تقاضے کیا ہیں ان سب سوالوں کے جواب لینگے اپنے ماہرین سے۔ کامران بخاری کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکا بھی نہیں جانتا کہ وہ مڈل ایسٹ سے کیا چاہتا ہے کیونکہ امریکا کے اندر ایسا طوفان برپا ہے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اور انکے مخالفین کے درمیان ہے جس کا پہلو لوکل سیاست اور انٹرنیشنل سیاست سے ہے۔پاکستان میں یہ تصور کرنا کہ کسی پلان کے تحت امریکا کچھ کر رہا ہے میں سمجھتا ہوں وہ نادانی ہوگی۔ معید یوسف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی سوچ بہت مختلف ہے اپنی اسٹیبلشمنٹ سے جس کا وہ خود بھی بارہا ذکر کر چکے ہیں شام سے نکلنے کا فیصلہ ٹرمپ کا ہے نا کہ پنٹاگون کا ۔ سعودی عرب سے جس طرح کے پیکجز مل رہے ہیں وہ امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں مل سکتے۔ ایران کو بالکل فوکس کیا ہوا ہے کہ اُسے الگ کرنا ہے وہ بھی اس آؤٹ سورسنگ پراسیس کے تحت چل رہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب میں حریف ہیں اور ایران میں حریف ہیں۔ مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کوئی بھی اپنے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکتا اگر سعودی عرب پاکستان کے قریب آرہا ہے۔ تعلقات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک لانگ ٹرم میں دیکھا جائے تو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اچھے ہی رہے ہیں۔ اس دورے کے بعد ہندوستان میں 44؍ بلین ارب روپے کا ریفانری پراجیکٹ کی بات ہو رہی ہے اس طرح کے پراجیکٹ نا صرف سعودی عرب بلکہ متحدہ عرب امارات اور دیگر مسلمان ممالک بھی کر رہے ہیں پاکستان سے کہیں بڑی لاگت ہے ایم او یوز کی حد تک۔ چیئرمین پاکستان علماء کونسل علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پچھلے دور میں نواز شریف کی حکومت نے سعودی عرب کی تصویر کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا کبھی سعودی عرب نے نہیں کہا کہ آپ کی فوج کو یمن بھیجنا چاہتے ہیں یہاں پارلیمنٹ میں جو کچھ کیا گیا اُنکا ناراض ہونا بنتا تھا ۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مجھ سے کہا کہ ہم ہر صورت پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور سلمان نے مجھے کہا کہ میرے دل میں پاکستان بستا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سعودی عرب کے تعلقات کسی شخصیت کو لے کر نا خراب ہوتے ہیں نا بہتر ہوتے ہیں۔ کامران بخاری کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت غیر معمولی حالات ہیں کیونکہ امریکا میں ایسا صدر ہے جسکے حوالے سے واشنگٹن اور اسٹیبلشمنٹ میں بہت منفی رائے پائی جاتی ہے یہ دیکھتے ہوئے نظر آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صدر کو مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔اسرائیل کے حوالے سے صدر ٹرمپ اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں فرق نہیں ہے۔ واشنگٹن میں چین زیادہ تھریڈ نہیں ہے اور امریکا یہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستان معیشت کے حوالے سے مجبور ہے اور امریکا کے مفاد میں بھی ہے کہ پاکستان غیر مستحکم نہ ہو اور یقینا وہ اپنا فائدہ بھی دیکھ رہا ہے کیونکہ چین پیسہ ڈال رہا ہے اور امریکا کو پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور امریکا جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے امریکا کا متبادل چین نہیں ہوسکتا۔ معید یوسف نے مزید کہا کہ امریکا اور اسرائیل کااس وقت ایران اصل ہدف ہے۔ لیکن ہمارے سعودی عرب سے تعاون کا معاملہ ایران سے مخصوص نہیں ہے۔یہ اچھی بات ہے جو، اب نہیں ہو رہی کہ ہم پہلے یہ دیکھتے تھے کہ آپ انڈیا کے ساتھ اگر یہ کر رہے ہیں تو ہمارے ساتھ معاملات نہیں ہوسکتے ہم ان چیزوں سے نکل آئے ہیں۔ مشرف زیدی کا مزید کہنا ہے کہ ایران نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ یمن سے شام تک جن گروپوں کو سپورٹ کرتا ہے کیا وہ اُن کو سپورٹ کرتا رہے گا یا ایران یہ فیصلہ کریگا کہ جو گیس پائپ لائن روس ترکی اور پاکستان کے ساتھ اشتراک کے ذریع کرنا ہے۔

تازہ ترین