• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنی پروفیشنل لائف میں بےشمار اتار چڑھائو دیکھے۔ 2002ء میں لاہورکی ایک یونی ورسٹی (U.E.T) سےگریجویشن کے بعد روزگار کی تلاش میں تگ و دو شروع کی،تو جلد ہی اپنے ہی شہر میں ایک عارضی ملازمت مل گئی، جو خوش قسمتی پر محمول کرتے ہوئے فوراً قبول کرلی۔ اِن ہی دنوں میرے والد صاحب کی پوسٹنگ بہاول پور ہوگئی اور بڑے بھائی تعلیم کی غرض سے اسلام آباد چلے گئے۔ اس صورت میں میرا گھر پر ہونا ضروری تھا، لہٰذا اپنے ہی شہر میں ملازمت ملنے کو گھر کے حق میں بہترجانا، اگرچہ ملازمت عارضی تھی اور تن خواہ بھی کم تھی، لیکن ڈیڑھ سال تک محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ذمّے داری نبھاتا رہا۔ معاون کے طور پر کچھ اضافی کاموں کی انجام دہی بھی میرے سپرد تھی۔ ہفتے میں پانچ روز شفٹیں تبدیل ہوتی تھیں، لیکن خود کو کام کا عادی بنانے اور زیادہ سے تجربہ حاصل کرنے کے لیے اکثر صبح نو بجے فیکٹری پہنچ جاتا اور رات نو بجے تک وہیں رہتا تھا۔ ایسے میں ملازمت کی تھکا دینے والی مشقّت میں پہلے نمازیں قضا ہونے لگیں، پھر آہستہ آہستہ نماز پڑھنے کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا۔ میرے نزدیک مختصر مدت میں اپنا کیریئر بنانا ہی زندگی کامقصد اور محور بن گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد مالکان کی نظروں میں آنے اور ملازمت میں توسیع کروانے کے لیے چھٹی کے دنوں، یعنی ہفتے اور اتوار کے روز بھی فیکٹری جانا شروع کردیا، جس کا مجھے الگ سے کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سخت محنت کے سبب تھکا تھکاسا رہنے لگا،لیکن مالکان نے کبھی میری اس بےپناہ مشقّت کو سراہا تک نہیں۔ اور جب معاہدے کی مدّت ختم ہوئی، تو میری چھٹی کردی گئی۔مالکان کی اس بے اعتنائی نے مجھے مزید تھکادیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں، جنہوں نے میری محنت اور قربانیوں کی رتّی بھر پروا نہیں کی۔ بہرحال، اس ملازمت سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ میری معلومات اور تجربے میں خاصا اضافہ ہوگیا۔ ان ہی دنوں میرے والد صاحب بھی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بہاول پور سے گھر آگئے، یعنی دو پریشانیاں ایک ساتھ آئیں، تو میرا ذہن مایوسیوں کی آماج گاہ بن گیا۔

کافی تگ و دو کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت ملی، تو وہاں بھی رات دن مالکان کو خوش رکھنے کی کوششیں شروع کردیں۔ کمپنی کا ہیڈ آفس لاہور میں تھا، مگر میری پوسٹنگ شیخوپورہ فیکٹری میں کی گئی۔ وہاں نیا ڈیپارٹمنٹ کھلا تھا، اس میں میرے اور باس کے علاوہ کوئی تیسرا نہ تھا، یہاں مجھے کھل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ افرادی قوت نہ ہونے اور زیادہ کام کی وجہ سے میں ایک بار پھر گھن چکّر بن گیا۔ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک ڈیوٹی کے بعد جب فیکٹری سے نکلتا، تو رات نو بجے تک گھر پہنچ پاتا ،کبھی دیر ہوجاتی، تو رات دس گیارہ بارہ تک واپسی ہوتی ۔ دوسال تک اسی روٹین پر چلنے کے باعث وقت اور کام کا توازن بگڑا تو تھکن سے آئے روز بیمار رہنے لگا۔ نماز روزے تو چھوٹ ہی چکے تھے، رشتے ناتے نبھانے سے بھی محروم ہوگیا۔ حتیٰ کہ گھر والوں سے بھی کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی تھی۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے گھر والوں کے لیے اجبنی بن چکا تھا۔ پھر تقریباً پونے دو سال اسی روٹین میں زندگی گزارنے کے بعد بالآخر مجھےلاہور آفس بھیج دیا گیا۔ دراصل ملٹی نیشنل کمپنیز اپنے ملازمین کی پیشہ ورانہ تربیت پرخاص توجّہ دیتی ہیں۔ ملازمین کو کام میں طاق کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر مسلسل تبادلے کرنا ان کے معمولات میں شامل ہے اور میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ اپنی اس ملازمت کے دوران بہت سے تربیتی کورسز کرنے پڑے، کئی بار بیرونِ ملک بھی بھیجا گیا، لیکن سخت محنت، جدوجہد اور لگن کے باوجود مجھے ترقی نہیں دی گئی۔ جب میں نے باس سے گلہ کیا، تو جواب ملا کہ ’’ترقی کے لیے تمہیں اپنی تعلیمی قابلیت بڑھانی ہوگی۔‘‘ اس وقت تک جسمانی تھکن میری صحت پر بری طرح اثرانداز ہوچکی تھی۔ نتیجتاً پٹّھوں کے عارضے میں مبتلا ہوگیا۔ تاہم، میرے جنون نے صحت کا معاملہ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور میں نے لاہور کی ایک یونی ورسٹی میں ایم بی اے میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران پٹھوں کا عارضہ بڑھتا گیا اور میں ڈاکٹروں کے نرغے میں گِھرارہا۔ ادویہ کے استعمال، فزیوتھراپی کے مراحل نے میری صحت مزید خراب کردی۔ اسی دوران گھر والوں نے میری شادی کا معاملہ اٹھادیا۔ رشتے دیکھے جانے لگے، مجھے پتا چلا، تو صاف انکار کردیاکہ ’’فی الحال ملازمت میں ترقی کے لیے مجھے اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانا ہے، لہٰذا شادی کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔‘‘مگر تعلیمی قابلیت تو کیا بڑھتی، مجھے ذہنی تھکان نے مجبور کیا کہ اپنی کھوئی صحت پانے کے لیے ملازمت چھوڑ دوں۔ اس فیصلے نے مجھے ڈیپریشن کا بھی مریض بنا ڈالا، پٹّھوں کی تکلیف کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی تھی، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے، کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا، ملازمت بوجھ بن چکی تھی۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ سارا سارا دن گھر پر پڑا رہتا، کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔

ایک رات بستر پر لیٹا، تو فوراً نیند آگئی اور خواب میں دیکھا کہ میں بغیر چھت کے ایک تانگے پر سوار ہوں، تانگا سڑک پر سرپٹ دوڑا چلاجارہا ہے۔ اچانک تانگا ایک کچّی بستی میں داخل ہوجاتا ہے اور تنگ اور کچّی گلیوں سے گزر کر ایک جگہ رک جاتا ہے۔ میں تانگے سے اترکے بھاگتے ہوئے ایک گھر کے سامنے پہنچتا ہوں، وہاں ایک دبلا پتلا لڑکا گیٹ پر مجھے خوش آمدید کہتاہے اور اپنی رہنمائی میں اس گھر کے اندر لے جاتا ہے۔ صحن کے اوپر چھت ہونے کی وجہ سے وہاں گھپ اندھیرا ہے اور لڑکا کچھ دِیے روشن کرتا ہے، تو صحن میں بے شمار قبریں نظر آنے لگتی ہیں، لڑکا ایک قبر کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے ’’یہ آپ کی ہے۔‘‘ اس قبر کے کتبے پر اپنا نام لکھا دیکھ کر میں گھبرا جاتا ہوں، اور پھر میرا دماغ بدبو سے پھٹنے لگتا ہے۔ میں گھبرا کر وہاں سے آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھاتا ہوں، مگر وہ وہیں جم جاتے ہیں۔ میں چیختا ہوں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر نیند سے بیدار ہونے کے باوجود وہ مخصوص بو بدستور میرے دماغ میں گھسی جارہی تھی۔ اسی وقت فجر کی اذان ’’اللہ اکبر‘‘ کے واضح پیغام سے سنائی دی، میری زبان سے بے ساختہ ’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ ادا ہوئے اور وہ بدبو یک لخت غائب ہوگئی۔ میں نے چارپائی سےچھلانگ لگائی، فوراً وضو کیا، کمرے ہی میں فجر کی نماز ایک طویل عرصے کےبعد پڑھی، تو دل میں گہرا سکون اترتا چلا گیا۔ عرصۂ دراز بعد میرے دل کو قرار نصیب ہوا تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنے معمولات بدل ڈالے، پہلے ایم بی اے پورا کرنے کا فیصلہ کیا، اپنے گھر والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے لیے بہت سا وقت نکالا، پٹّھوں کے درد کا باقاعدگی سے علاج کروایا اور اپنی ترجیحات میں نماز کو سرِفہرست رکھ کر اللہ سے وعدہ کیا کہ کچھ بھی ہوجائے، نماز کبھی قضا نہیں کروں گا۔ بے شک، روح کی بیماری کا واحد علاج صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے احکامات پر عمل میںہے۔ دنیاداری میں روحانیت کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ شکر ہے کہ سات آٹھ سال مشینی زندگی گزار کر میں نے خود کو اس خواب کی مدد سے سنبھال لیا۔ مجھے تعلیم کے تکمیل کے بعد اس سے بھی بہتر ملازمت مل گئی، مگر اب پہلے جیسے مجنونانہ پَن سے منہ موڑ چکا ہوں۔ ہر شے چھوڑ کر صرف ایک بات کو سر پر سوار کرچکا ہوں کہ روح کی تازگی کے لیے نماز بے حد ضروری ہے۔

(عبدالعلیم، رحیم یار خان)

تازہ ترین