• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت کے کیلنڈرسے ایک اور سال غائب ہو چکاہے اور ایک نئے سال کے سورج کی پہلی کرن نے اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے ۔2012میں بہت ساری بڑی بڑی شخصیات ابدی نیند سو کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی ہیں اور بہت ساری ماؤں نے نئی نسلوں کو جنم دے کر دنیا میں زندگی اور امید کی شمع روشن رکھی ہے ۔
اگر پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو گذشتہ سال امن و امان کی صورتحال بہت خراب رہی ہے ۔دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں ،ٹارگٹ کلنگ کا کھیل جاری رہا اور حکمرانوں کے یہ بیانات ہماری نظروں سے گزرتے رہے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا ۔قتل وغارت گری کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے ۔لیکن بے گناہ لوگوں کی زندگی کے چراغ گل ہوتے رہے ۔بوڑھی مائیں اور ہاتھوں میں ارمانوں کی چوڑیاں پہنیں ،سہاگنیں اور دوشیزائیں روتی رہیں۔ معصوم بچے بلکتے رہے۔
2012میں بھی ہم نے دیکھا کہ ہمارے بچے جنہیں اسکول جانا تھا وہ گاڑیوں کی ورکشاپوں پر پیچ کَس ، پلاس ، ہتھوڑی پکڑاتے رہے اور چائے پانی لا کر اپنے استادوں کی خدمت کرتے رہے۔
کتابوں کا بستہ اٹھانے کی بجائے بچے کندھے پر کوڑا کرکٹ اور کچرا اکٹھا کرنے کے بوری لیے گھومتے رہے ، ماؤں کے پہلو میں بیٹھ کر پیٹ بھر کے کھانا کھانے کی بجائے ڈھیروں سے خوراک کے ٹکڑے اکٹھے کر کے پیٹ کی آگ بجھاتے رہے۔
پڑھے لکھے گریجویٹس ہاتھوں میں ڈگریوں کی فائلیں لے کر نوکریوں کے لیے دھکے کھاتے رہے۔انصاف کے منتظر اور حق حاصل کرنے کے لیے ہمارے لوگ ضلع کچہریوں اور عدالتوں کے دھکے کھاتے رہے ۔صارفین بجلی اور گیس کے بل ہاتھوں میں اٹھائے بلوں کی زیادتی کا رونا روتے رہے۔صنعت کار انرجی کرائسز کی وجہ صنعتوں کی بندش اور لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا عندیہ دیتے رہے ۔ڈاکٹرز مطالبات پورے نہ ہونے پر ہڑتالیں کرتے رہے اورمریض ایڑھیاں رگڑرگڑ کے مرتے رہے ، مزدور یونینز مہنگائی کے مقابلے میں تنخواہوں اور مراعات کی کمی کی شکایت میں تقریریں اور جلسے کرتے رہے۔حکومت قدرتی گیس کی کمی کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنزپر راشن بندی کرتی رہی اور سی این جی اسٹیشنز کے مالکان نقصان اور تباہی کا واویلہ کرتے رہے ۔چھوٹی بڑی گاڑیوں کے مالکان سی این جی کے حصول کے لیے چوبیس چوبیس گھنٹے قطاروں میں کھڑے رہے ۔سی این جی کے معاملات حل نہ ہو پائے تھے کہ پیٹرول کے لیے بھی لمبی لائنیں لگ گئیں ۔
سرائیکی صوبے اور ہزارہ صوبے کے خواہش مند اپنے اپنے بیانات کے ذریعے ان صوبوں کے قیام کے لیے کوشاں رہے ان صوبوں کی ضرورت کے لیے دلائل دیتے رہے ۔بے روز گاری اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے بڑے بڑے شہروں میں مال وزر چھیننے ،ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافے کی وارداتیں ہوتی رہیں ۔
دوا جو علاج اور تندرستی کے لیے ہوتی ہے وہ پی کر لوگ موت کی وادی میں گم ہوتے رہے ۔
عمارتوں ، فیکٹریوں اور دفاتر میں لاپرواہی کی وجہ سے آگ بڑھکتی رہی ۔اور زندہ لوگ جل کر کوئلہ بنتے رہے ۔
قبضہ مافیہ سرکاری اہلکاروں کی مدد سے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرتا رہا ۔حکمرانوں کی عیاشیوں اللوں تللوں پر ملکی خزانے خرچ ہوتے رہے اور ملکی معیشت کی حالت روز بروز گرتی رہی ۔2013کا سورج طلوع ہو چکا ہے ۔یہ الیکشن کا بھی سال ہے کیا ہم اٹھارہ کروڑ عوام میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ جو 2012کے مسائل کو ختم کر کے اس قوم کے لئے سکون کا باعث بن سکے ۔بدسکونی ، خوف اور بے یقینی سے مرجھائے ہوئے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ لاسکے ۔اقرباء پروری کو دفن کر کے میرٹ کو فروغ دے سکے ۔کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے تباہ ہونے والے اداروں کو بچا سکے ۔کانپتے ہاتھوں میں حق کے لیے درخواستیں لیے گھومنے والے بوڑھوں اور کمزور لوگوں کو انصاف دلواسکے ۔پارلیمنٹ سے ایسے قوانین منظور کروا سکے کہ ملک میں امن وامان ہو جائے ۔جنم لینے والی نئی نسلوں کے تابناک مستقبل کے لیے والدین کو یقین دلا سکے ۔یا 2013بھی ایسے ہی قتل وغارت ، جھگڑوں اور محرومیوں میں گزر جائے گا۔
تازہ ترین