• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے اس موضوع پر لکھنے کا محرک میرے ایک مہربان اور وسیع المطالعہ دوست کا کالم ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو پاکستان کا خیر خواہ اور دوست قرار دیا ہے اور اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ’’ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی‘‘ انہوں نے یہ نتیجہ مائونٹ بیٹن کے مکتبہ فکر کی ایک کتاب سے اخذ کیا ہے۔ ایک ادنیٰ طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میرا مشورہ ہے کہ تحریک پاکستان پر حتمی رائے دینے سے قبل اس موضوع پر چند ایک اہم کتابوں کا مطالعہ ضرور کرلینا چاہئے۔ کالم کا دامن محدود ہے اس لئے میں بہت سے حوالوں اور تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے مختصر الفاظ میں اپنا نقطہ نظر واضح کروں گا۔ آپ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔

ان گنت تحقیقی کتابیں یہ ثابت کر چکیں کہ ہندوستان کو تقسیم کرتے وقت بائونڈری کمیشن نے پاکستان سے نہ صرف ناانصافی کی بلکہ ’’ظلم‘‘ کیا اور اس ناانصافی کے پس پردہ مائونٹ بیٹن تھا جس نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے ایوارڈ تبدیل کروایا۔ قائداعظم جیسا مدبر اور سچا انسان بھی اس ایوارڈ پر احتجاج کئے بغیر نہ رہ سکا۔ انہوں نے اپنی براڈ کاسٹ تقریر میں کہا ’’کہ اس عظیم اور آزاد مسلم ریاست کی تشکیل میں ہمارے ساتھ انتہائی بے انصافیاں کی گئیں اور ہمیں ہر طرح سیکڑنے کی کوشش کی گئی۔ بائونڈری کمیشن کا ایوارڈ ہم پر آخری ضرب ہے۔ یہ غیر منصفانہ، ناقابل فہم اور Perverseہے چونکہ ہم اسے قبول کرنے کے پابند ہیں اس لئے ایک معزز قوم کی طرح اسے قبول کرتے ہیں۔‘‘ (قائد اعظم کی تقاریر انگریزی از خورشید یوسفی جلد چہار صفحہ 2646)

مہاراشٹر (ہندوستان) کے ایک ایڈووکیٹ جنرل ایچ ایم سیروائی نے اس موضوع پر Partition of India legend and reality نامی کتاب لکھی ہے جس میں حکومت برطانیہ کی طرف سے چھاپی گئی ٹرانسفر آف پاور کی بارہ جلدوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ٹرانسفر آف پاور میں اس موضوع سے متعلقہ تمام خفیہ رپورٹیں اور کاغذات شامل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک مستند دستاویز ہے۔ سیروائی کی کتاب کے باب نمبر 9میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ بائونڈری کمیشن کا چیئرمین سر ریڈ کلف 9 جولائی کو ہندوستان پہنچا۔ اس کےاسٹاف میں ہندو بیوروکریٹ وی پی مینن بھی شامل تھا جو اسے Adviceکرتا تھا۔ ریڈ کلف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یوم آزادی سے چار دن قبل 10اگست تک ایوارڈ کا اعلان کردے گا تاکہ حکومتی مشینری کو انتظامات کرنے میں سہولت رہے۔ دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے 9اگست کو ایوارڈ طے کرلیا تھا لیکن اسے 16اگست تک ملتوی رکھا گیا جس سے قتل عام کی آگ مزید پھیلی۔ پنجاب کے ایوارڈ کے حوالے سے سیروائی نے ٹرانسفر آف پاور کی بارہویں جلد کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ پنجاب کی تقسیم کرتے ہوئے پاکستان سے ظلم کیا گیا۔ آزادی سے قبل پنجاب کا گورنر سر جینکز تھا۔ اس نے وائسرائے کو خط لکھا کہ پنجاب میں فسادات اور قتل عام کا خطرہ ہے اس لئے مجھے یوم آزادی سے کچھ دن قبل پنجاب کی سرحدوں کی اطلاع دی جائے تاکہ خون خرابے کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کر سکوں۔ 8اگست کو وائسرائے کے اسٹاف کی جانب سے پنجاب کے گورنر جینکز کو خط لکھا گیا جس کے ساتھ ایک نقشہ بھی منسلک تھا جس پر حد بندی ظاہر کی گئی تھی۔ نوٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ اس بائونڈری میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، اس نقشے کے مطابق ضلع فیروز پور کی تحصیلیں فیروز پور اور زیرہ پاکستان میں شامل تھیں۔ برطانوی حکومت کی شائع کردہ بارہویں جلد میں لکھا ہوا ہے کہ وائسرائے ہائوس سے سیکرا (خفیہ) فون آیا کہ ان علاقوں کو نکال دو۔‘‘ اس جلد میں سر جینکز کا خط بنام مائونٹ بیٹن بھی شامل ہے جس میں اس نے اپنے اختلافات کا ذکر کیا ہے۔

اس کہانی کا اگلا حصہ چودھری محمد علی نے اپنی کتاب’’ظہور پاکستان‘‘ میں بیان کیا ہے ’’پنجاب میں ریڈ کلف نے جو ثالثی فیصلہ کیا اس میں متصلہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان سے قطع کر دئیے لیکن ہندوستان سے غیر مسلم اکثریت کا ایک بھی علاقہ نہ لیا گیا۔ ضلع گورداسپور میں متصلہ مسلم اکثریتی تحصیلیں گورداسپور، بٹالہ اور پٹھانکوٹ ہندوستان کو دے دی گئیں تاکہ ہندوستان کا جموں کشمیر سے رابطہ قائم ہوسکے ( کشمیر کی واحد سڑک یہاں سے گزرتی تھی) ضلع امرتسر کی مسلم اکثریتی تحصیل اجنالہ بھی ہندوستان کو دے دی گئی اور ضلع جالندھر کی دو تحصیلیں نکرور اور جالندھر بھی ہندوستان کے حوالے کر دی گئیں۔ سرحدی خط اس طرح کھینچا گیا کہ فیروز پور ہیڈورکس بھی ہندوستان میں شامل ہو گیا جس سے نکلنے والی نہروں سے پاکستان کے زیادہ تر علاقے سیراب ہوتے تھے۔‘‘

چودھری محمد علی انکشاف کرتے ہیں ’’گورنر جینکز نے جو کاغذات پیچھے چھوڑے ان میں پنجاب کے بارے ریڈ کلف فیصلے کا خاکہ بھی موجود تھا جو مائونٹ بیٹن کے سیکرٹری جارج ایبل نے 8اگست کو بھیجا تھا۔ ایوارڈ نقشے کی صورت میں مرتب کیا گیا تھا (یہ وہی نقشہ ہے جس کا ذکر سیروائی کرتے ہیں اور جو ٹرانسفر آف پاور کی بارہویں جلد میں موجود ہے)۔ اس کے مطابق فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلیں پاکستان کا حصہ تھیں لیکن ریڈ کلف نے 12اگست کو یہ علاقے ہندوستان کو دے دئیے۔ پنجاب بائونڈری کمیشن کے مسلمان رکن جسٹس دین محمد نے حکومت پاکستان کو بتایا کہ جب ہم نے ان تحصیلوں کے حوالے سے دلائل دئیے تو ریڈ کلف نے ہمیں روک دیا کہ یہ امر اظہر من الشمس ہے اس لئے دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود یہ علاقے ہندوستان کو دے دئیے۔‘‘ چودھری محمد علی لکھتے ہیں کہ میں پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے وائسرائے سے ملنے گیا تو میں نے وائسراے کے چیف آف اسٹاف کے کمرے میں ایک لٹکا ہوا نقشہ دیکھا جس پر لکیریں کھینچی ہوئی تھیں۔ ان کے مطابق مسلم اکثریت کی یہ تحصیلیں پاکستان کو مل رہی تھیں۔

بہت سی کتابوں میں تحقیق سے ثابت کیا گیا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے ریڈ کلف پر اثر انداز ہو کر یہ ایوارڈ تبدیل کروایا۔ ظاہر ہے کہ مائونٹ بیٹن آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل نامزد ہوچکا تھا، اس کی نہرو سے گہری دوستی تھی، نہرو کی لیڈی مائونٹ بیٹن سے عشق کی کہانی پر بھی کئی کتابیں ہندوستان میں چھپ چکی ہیں، اس لئے اس کی ہمدردیاں ہندوستان کے ساتھ تھیں۔ ادھر وی پی مینن ہر لمحے خبریں کانگرسی قیادت کو پہنچا رہا تھا۔ مائونٹ بیٹن کے کردار بارے ایک معتبر کتاب جنرل شاہد حامد مرحوم کی ہے جس کا نام Twilight Delhi ہے۔ کیپٹن شاہد حامد مائونٹ بیٹن کے اے ڈی سی تھے۔ ان کا گھر مائونٹ بیٹن کی رہائش گاہ کے قریب تھا اور وہیں مہمان خانہ تھا جس میں لارڈ ریڈ کلف ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ عینی شاہد کی حیثیت سے لکھتے ہیں کہ 12-11 اگست کے فیصلہ کن ایام میں مائونٹ بیٹن ریڈ کلف کو ون ٹو ون ڈنر پہ بلاتا رہا اور انہی ملاقاتوں کے نتیجے کے طور پر ایوارڈ میں تبدیلیاں کی گئیں کیونکہ برطانوی ریکارڈ کے مطابق ایوارڈ 9اگست کو مکمل ہوچکا تھا لیکن اعلان 16اگست تک ملتوی رہا۔

ایسے مائونٹ بیٹن کو جو پاکستان کا دشمن تھا پاکستان کا ہمدرد یا خیر خواہ کہنا زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جنہیں یہ غلط فہمی ہے کہ مائونٹ بیٹن نے کشمیر پاکستان کو دینے کی کوشش کی وہ پروفیسر لیمب (LAMB) کی کتاب Kashmir a Disputed legacy پڑھیں جس نے مائونٹ بیٹن کی مہاراجہ پر اثر انداز ہو کر ہندوستان سے الحاق پر روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح رضوانی کے حوالے سے یہ دعویٰ کہ قائداعظم نے پہلا ترانہِ پاکستان جگن ناتھ آزاد سے لکھوایا اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ ان موضوعات پر فیصلہ دینے سے پہلے متعلقہ تحقیقی کتابیں پڑھ لیا کریں تاکہ ان کے الفاظ سے قارئین گمراہ نہ ہوں۔

تازہ ترین