• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان پر انگریز کا راج تھا، سرکار نے نمک پر ٹیکس عائد کر رکھا تھا، قانون کے مطابق نمک پر حکومت کی مکمل اجارہ داری تھی، کوئی بھی شخص بغیر اجازت کے نمک کا ذخیرہ نہیں کر سکتا تھا، قانوناً زمین پر گرا ہوا نمک بھی حکومتی ملکیت تھی اور اسے اٹھانا جرم تھا۔ 31دسمبر 1929کو لاہور میں راوی کے کنارے جب کانگریس نے ہندوستان کا جھنڈا لہرایا اور ’’پورنا سواراج‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو ساتھ ہی گاندھی کو سول نافرمانی شروع کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ گاندھی نے انگریز کے نمک کے قانون کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا اور ایک مارچ کا اعلان کر دیا، یہ مارچ چوبیس دن تک جاری رہا، ان چوبیس دنوں میں گاندھی نے پیدل دو سو چالیس میل کا سفر طے کیا، وہ جہاں جاتا لوگ جوق در جوق اس کے قافلے میں شامل ہو جاتے، ہزاروں لاکھوں کے اس قافلے نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی، دنیا کو جب علم ہوا کہ ہندوستان میں نمک زمین سے اٹھانا قانوناً جرم ہے اور گاندھی نامی ایک کمزور اور نہتا شخص اس بے رحم قانون کو توڑنے کے لیے پیدل سفر پر نکل کھڑا ہوا ہے تو انگریز سرکار پوری دنیا میں ذلیل ہو کر رہ گئی۔ ہندوستان، یورپ اور امریکہ کے اخبارات نے اس مارچ کو کوریج دی، ٹائم نے گاندھی کو 1930کا مین آف دی ایئر کا خطاب دیا، نیو یارک ٹائمز نے روزانہ کی بنیاد پر مارچ کی خبریں دیں۔ 6اپریل 1930کی صبح گاندھی نے ڈانڈی (سورت کے قریب ایک گاؤں) کے مقام پر ساحل سمندر سے مٹھی بھر نمک اٹھا کر مارچ ختم کرتے ہوئے کہا ’’میں انگریز راج کی بنیادیں ہلا رہا ہوں۔‘‘ باقی تاریخ ہے۔

گاندھی اور جناح صاحب دونوں ہی سیاست میں عدم تشدد کے قائل تھے، یہ دونوں لیڈر اپنے وقت کی سپر پاور سے لڑے مگر نہتے، قلم، سچائی اور ضمیر کی طاقت کے بل پر، ان دونوں نے عدم تشدد کے فلسفے سے انقلاب برپا کیا۔ گاندھی اور جناح کا فلسفہ اپنانے میں دنیا کو پچاس سال لگ گئے، 9/11کے بعد دنیا کو سمجھ آئی کہ ہر قسم کا تشدد چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو اور اُس کا کوئی بھی نیک مقصد ہو، قابل قبول نہیں ہو سکتا، دہشت گردی کی ہر شکل ناقابل برداشت ہے، آزادی کی تحاریک اور دہشت گردی میں فرق اب صرف اِس بات پر کیا جاتا ہے کہ کون سی تحریک پُرامن ہے اور کون سی پُرتشدد۔ دنیا یہ بات سمجھ چکی ہے، کشمیریوں کو بھی یہ بات جان لینی چاہیے۔

آج کی جدید اور مہذب دنیا میں غلامی، نسل پرستی، مرد کی حاکمیت یا عورت کو دبا کر رکھنے کا کوئی تصور نہیں، آج کی دنیا ہم جنس پرستوں کی حمایت میں کھڑی ہے حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کشمیری جو ظلم بھی سہہ رہے ہیں، جنہیں حق خود ارادیت بھی نہیں دیا جا رہا، جن کی زمین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہو رہی ہیں، جہاں بھارتی فوج سفاک قوانین کی آڑ میں کشمیریوں کا قتل بھی کر دیتی ہے، جہاں ہر گھر میں ایک شہید ہے.....اِن کی حمایت میں دنیا میں آواز بلند نہیں ہوتی اور نہ کوئی ان کا مقدمہ لڑتا ہے؟ کیونکہ جب بھی کشمیر میں تشدد کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بھارت دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ وہاں دہشت گردی جاری ہے جسے کچلنا ضروری ہے، اس کے بعد وہاں جو ظلم ہوتا ہے اسے کوئی نہیں پوچھتا اور رہی سہی کسر بھارتی فلموں کی چکا چوند پوری کر دیتی ہے جنہیں دیکھ کر دنیا سمجھتی ہے کہ یہی بھارت کا اصل چہرہ ہے۔ آج کے کشمیریوں کو اسی طرح جدوجہد کرنا چاہیے جیسی سو سال پہلے گاندھی اور جناح صاحب نے کی تھی۔ اہنسا اور ستیاگر....بغیر ہتھیار اٹھائے، عدم تعاون، عدم تشدد کی پالیسی۔ کشمیریوں کا مقدمہ تو اس قدر مضبوط ہے کہ بھارتی حکومت کو تو اپنے پاؤں پر گر جانا چاہیے، مگر یہ اس وجہ سے نہیں ہو سکا کیونکہ آج کی دنیا ہر قسم کی مسلح جدوجہد کو دہشت گردی سمجھتی ہے اس لیے کسی بھی قسم کا بم دھماکہ جو ’’نیک نیتی‘‘ سے فوجی قافلے پر ہی کیوں نہ کیا جائے اور اسے ہم جو بھی سمجھیں، اس کی جو بھی تاویل دیں، اس کی جو بھی وجہ تلاش کریں .... دنیا اسے دہشت گردی ہی کہتی ہے۔ اور جب ایک تحریک پر یہ لیبل لگ جائے تو پھر دنیا اس کے ساتھ کھڑی نہیں رہ سکتی، یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری ہم جنس پرستوں کو حقوق نہ ملنے پر تو تڑپ اٹھتی ہے مگر کشمیر میں حق خودارادیت کے معاملے پر خاموش رہتی ہے حالانکہ زندہ رہنے کا حق ہم جنس پرستی کے حق سے کہیں زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔

کشمیریوں کو اب کچھ نئے کام کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے انہیں عدم تشدد کا فلسفہ اپنانا ہوگا، وہ مظلوم ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، بھارت غاصب ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں، مگر یہ بات دنیا کو سمجھانا پڑے گی اور اُس زبان میں سمجھانا پڑے گی جو وہ سمجھتی ہے۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے، ان کے شہدا کا ڈیٹا بیس بنایا جائے، ان کے قبرستانوں کا ڈیٹا بیس بنایا جائے، دنیا میں جہاں جہاں بھارت کرکٹ کھیلتا ہے کسی بھوت کی طرح اس کا پیچھا کیا جائے، کشمیری وہاں احتجاج کریں، اپنے مظالم کے بارے میں دنیا کو بتائیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ثبوت دکھائیں۔ یہ سب کام پاکستان میں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، پاکستان میں یہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے مکے میں اسلام پھیلانا، ضرورت دنیا کو بتانے کی ہے کہ جناب آپ جو مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ایک نظر کرم ادھر بھی ڈالیں۔ بھارتی عوام کی بھی بڑی تعداد کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کی حکومت کشمیر میں کیا ظلم کرتی ہے، بھارت کے ہوشمند طبقات کا ضمیر جگائیں، آخر وہاں کے فلم میکر ’’حیدر‘‘ جیسی فلم بنا سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں بھی باضمیر لوگ موجود ہیں۔ ادھر ہم نے آج تک کشمیر پر کوئی ایسی ڈاکیومنٹری یا فلم نہیں بنائی جو ہالی وڈ یا بی بی سی کے معیار کی ہو، ہمیں چاہیے کہ بین الاقوامی کمپنیوں سے کشمیر پر فلمیں بنوائیں، ان کو بین الاقوامی میلوں میں بھیجیں، دنیا میں آج تک ہولو کاسٹ پر فلمیں بن رہی ہیں، ہمیں بھی چاہیے کہ کشمیر پر ایک Schindler's Listجیسی فلم بنائیں اور اس کا نام رکھیں Schindler's List پارٹ ٹو، مغربی دنیا خودبخود جان جائے گی کشمیر میں کیا ظلم ہو رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین