• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب شاعر کہتے ہیں کہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ یا ’’منظر اک بلندی پر اور ہم بنا لیتے.... عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا‘‘ تو ہم ایسے اشعار کو روا روی میں پڑھ جاتے ہیں یا اپنے محدود ذہن کے مطابق ان کا الٹا سیدھا مطلب نکال کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن اگر ہمیں مستقبل کے امکانات کے بارے میں عملی انداز میں سوچنا پڑ جائے تو ہم نابیناؤں کی طرح سوائے ادھر ادھر ٹٹولنے کے اور کچھ نہیں کر پاتے۔ اگرہمیں غالب کے ’دشت ِامکاں‘ کے ایک ’نقش پا‘ کی تجسیم کرنا پڑ جائے تو ہم فضاؤں میں گم ہونے کے علاوہ شاید کچھ نہ کر پائیں۔ بڑے شاعر آفاقی حقیقتوں کے حال و مستقبل کی نشاندہی کے باعث ہی وقت کے بیکراں سمندر کے تیراک قرار پاتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگیوں پر غور کریں تو ہم سب نادیدہ امکانات کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

1964میں جب میں گاؤں میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا بلکہ ستر کی دہائی تک اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کھیتی باڑی کا وہ کام جو ہم سب بھائی بہن، ماں باپ اور نوکر مل کر مشکل سے کر پاتے تھے چند دہائیوں میں ایک شخص چند گھنٹوں میں کر لیا کرے گا تو میں کبھی یقین نہیں کر سکتا تھا بلکہ اگر کوئی ایسا کہتا تو اسے یقینی طور پر پاگل قرار دے دیا جاتا۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جاتا کہ مہینوں کا کام چٹکی بجاتے ہوئے ہو جایا کرے گا تو اس سے مزید سوالات جنم لیتے جن کا جواب دینا نا ممکن ہوتا۔

اس سلسلے میں جو بنیادی سوال اٹھایا جاتا اور جو اب بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر انسانوں کا کام مشینیں اور روبوٹ کرنا شروع کر دیں تو پھر انسان کیا کریں گے؟ جب مشینیں آنے سے پیشتر گاؤں کا ہر بچہ اور بوڑھا دن رات محنت کرتا تھا تب گاؤں کی اکثریت کے پاؤں میں جوتی تک نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہر چیز کی قلت تھی اور اس کا کسی کے پاس کوئی حل بھی نہیں تھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر سخت محنت کے باوجود ضروریات زندگی کو پورا کرنا مشکل تھا تو جب مشینیں اکثریت کو بے کار کر دیں گی تو ان کا نان و نفقہ کہاں سے آئے گا۔ چلئے جن کے پاس تو بہت سی زمین تھی وہ تو مشینوں سے ہونے والی پیداوار سے اچھی زندگی گزار لیں گے لیکن جن کے پاس بہت ہی تھوڑی زمین تھی یا وہ گاؤں کے کمی (دستکار) اور مزدور تھے ان کا کیا ہو گا۔ گویا کہ اس منظر نامے کے مطابق قیامت جیسا سماں برپا ہونے جا رہا تھا جس میں لوگوں کو بیروزگاری اور بھوک سے مر جانا چاہئے تھا۔ لیکن ہوا اس کے الٹ ہے۔ یہ تو درست ہے کہ گاؤں کی اکثریت کا کھیتی باڑی کے کاموں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا اور عملی طور پر ان کو بیکار ہی سمجھا جائے گا لیکن ایسا کیوں ہے کہ اب گاؤں میں ہر شخص کے پاؤں میں جوتا تو ہوتا ہی ہے ہاتھ میں ایک عدد سیل فون بھی ہوتا ہے۔ اب بہت سے لوگ جو کھیتی باڑی سے فارغ ہو گئے ہیں، دکانیں کھول کر مختلف طرح کا سامان بیچ رہے ہیں، اب ٹریکٹروں، بجلی، ٹی وی اور دوسری مشینوں کی مرمت کا کام کافی منافع بخش ہے۔ مشین کے آنے سے جن دستکاروں اور مزدوروں کے روزگار معدوم ہوئے ہیں وہ شہروں میں منتقل ہو کر زیادہ باعزت اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ گویا کہ نہ قیامت آئی اور نہ ہی کوئی بھوکا مرا۔

عصر حاضر میں جو بڑا مسئلہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے وہ یہ کہ جب پیداواری نظام میں زیادہ تر کام خود کار روبوٹوں کے ذریعے شروع ہو جائے گا تو انسان کیا کریں گے؟ ان کے پیشے کیا ہوں گے اور وہ روزی کا بندوبست کیسے کریں گے۔ یہ مسئلہ محنت کر کے روزی کمانے والوں تک محدود نہیں ہے بلکہ سرمایہ دار بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے کیونکہ اگر عوام کی آمدنی ختم ہو جائے گی تو وہ سرمایہ داروں کی پیدا کردہ اشیاء کیسے خرید پائیں گے؟ غرضیکہ عوام کی قوت خرید ختم ہونے سے پیداواری ڈھانچہ منجمد ہو جائے گا۔ یہ مسئلہ خیالی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں عملی سطح پر سامنے آرہا ہے۔ صنعتی پیداوار چین اور دوسرے ممالک میں منتقل ہو جانے سے امریکہ کے درمیانے طبقے کی زندگی گزارنے والوں پر جو زوال آیا ہے اسی سے غیر ملکیوں کے خلاف تعصب کے باعث ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے ہیں۔ لیکن وہ تاریخی عمل کے سامنے کیا کر سکتے ہیں؟ امریکہ کے درمیانے طبقے کی زبوں حالی میں کوئی فرق نہیں پڑا اور مسئلہ جوں کا توں کھڑا ہے۔ لیکن تب کیا ہوگا جب رہے سہے کام بھی روبوٹوں کے سپرد ہو گئے؟ اور پھر کیا بنے گا جب چین اور ہندوستان جیسے ممالک میں بھی پیداوار خود کار انداز میں ہونے لگے گی؟

یورپ میں اس مسئلے کا حل تیزی سے ڈھونڈنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ابھی تک تو کچھ ملکوں نے ہفتہ وار کام کو چالیس گھنٹوں سے گھٹا کر تیس گھنٹوں تک محدود کردیا ہے۔ یعنی اب ہفتے میں دو کی بجائے تین چھٹیاں ہوں گی اور تنخواہ میں بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ’آفاقی آمدنی‘ کی بات ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کام کرے یا نہ کرے اس کو ایک مخصوص رقم مہیا کی جائے گی جس سے اس کی گزر بسر ہو سکے ویسے ہی جیسے اب یورپ میں صحت کی سہولتیں ہر شہری کو میسر ہیں۔ یعنی کام کرنا لازمی کی بجائے اختیاری عمل ہوگا۔ آفاقی آمدنی کے اطلاق کے بعد فیض احمد فیض کا یہ شعر تو بالکل سمجھ نہیں آئے گا کہ ’’تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے‘‘۔ یہ ایک ویسا ہی امکان ہے جیسا کہ میرے گاؤں کی اکثریت کا کھیتی باڑی سے فارغ ہو جانا۔ ہم اس کا تصور کریں کہ بغیر کام کئے ہوئے بھی زندگی کی ضروریات پوری ہو جایا کریں گی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین