• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ…شہزاد علی
آج دنیا بھر کی معیشتیں سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہیں ۔ جبکہ برطانیہ اس وقت بریگزٹ ایشو کے باعث سیاسی طور پر غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ ابھی کل ہی ہمارے لوٹن کے لیبر ایم پی گیون شوکر سمیت سات ایم پیز نے پارٹی کو ہی خیر باد کہہ دیا۔ یہ ممبران پارلیمنٹ بریگزٹ پر کوئی واضح رہنمائی کرنے میں ناکام رہنے پر پارٹی لیڈرشپ سے نالاں تھے اسی طرح حکومتی ٹوری پارٹی میں جو اختلافات ہیں وہ حالیہ عرصے میں کئی مرتبہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اب ملک پر سیاسی بے یقینی کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں ان کے اثرات ملک کی معیشت اور اقتصادیات پر مرتب ہونا لازمی ہیں بلکہ گلوبلائزیشن کے باعث اس سیاسی جمود کے اثرات ایک وسیع دنیا کو آئستہ آئستہ اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔ دی ٹائمز لندن نے اپنے ایک ایڈیٹوریل، پولیٹیکل اکنامی میں لکھا ہے کہ سیاسی غیر یقینی فضا گلوبل اکنامی کو متاثر کر رہی ہے ۔ ایک چائنا ۔ یو ایس ٹریڈ ڈیل اور ایک بریگزٹ ڈیل برطانیہ اور باقی دنیا کے لیے کافی نہیں ہیں ۔ پہلے پہل کساد بازاری سے قبل انویسٹرز، سرمایہ کار کم کم ہی کسی ملک ملک کی سیاسی صورت حال پر غور کرنے کی زحمت کرتے تھے مگر اب جہاں گلوبلائزیشن کے کئی فوائد ہیں وہاں آج اسی باعث ایک ملک کی سیاسی غیر یقینی کی فضا دنیا بھر میں اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دی ٹائمز نے ٹیکس ریٹ اور ریگولیشننز کا اشارہ دیا ہے جب کسی ملک میں سیاسی استحکام ہو تو کاروباری طبقہ کاروبار سے متعلق امور کا بہتر ادراک کرسکتا ہے وہ قبل ازوقت پلان کرسکتے ہیں لیکن غیر یقینی فضا میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم کو آج بریگزٹ بیانیہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بزنس ورلڈ کی شکایت یہ ہے کہ بریگزٹ میں مدت بہت کم رہ گئی ہے مگر برطانیہ کی باقی دنیا کے ساتھ تجارت کی کیا شکل و صورت ہوگی یہ واضح نہیں۔ یہ بھی موازنہ کیا گیا ہے کہ جب دنیا کے مختلف ملکوں جن کی غیر یقینی سیاسی فضا نے ان کی معیشتوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اس لحاظ سے برطانیہ کی پوزیشن اتنی بری نہیں لیکن پھر بھی جو منفی اثرات ہیں وہ ملکی لحاظ سے کافی محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ رٹیل میں دسمبر میں صفر اعشاریہ نو کی کمی واقع ہوئی صارفین کا اعتماد 2013 سے کم سطح پر ہے۔ دی ٹائمز کے ہفتہ کے بزنس سیکشن میں فلپ آلڈرک نے خبردار کیا ہے کہ ایک نو ۔ ڈیل بریگزٹ شاید مینیج ایبل ہو جائے مگر یہ ہمیں خطرناک حد تک نقصان دہ پوزیشن سے دوچار کرسکتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ریفرنڈم کے بعد اور گزشتہ سال ستمبر کے درمیان ٹریڈ وزن کی بنیاد پر پونڈ بارہ فیصد گرا باوجود اس کے کہ کوئی تجارتی حریف بھی نہیں تھا۔ یوکے کی ٹوٹل کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا پانچ فیصد ہے۔ جو کسی بھی جی سیون جدید ترین قوم میں بدترین ہے اب یورپ سے انخلاء کی صورت میں برطانیہ کی پوزیشن مزید نازک ہوجائے گی ۔ برطانیہ اس بڑی عدم متوازن صورت حال کو صرف بیرونی کیپٹیل ان فلوز کو اٹریکٹ کرکے مینج کر سکتا ہے جبکہ موقر اخبار فنانشل ٹائمز ویک اینڈنے لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے بریگزٹ ڈبیٹ کو دو واقعات نے گھیرے رکھا؛ تازہ ترین جی ڈی پی اعدادوشمار نے یہ ہائی لائٹ کیا کہ ایک ڈیل کے بغیر کی صورت حال کیسے اکنامی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پلس ،تھریسا مے کے لیے دوسری پارلیمانی شکست پیر کا گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ ڈیٹایہ ظاہر کرتا ہے کہ بزنس انویسٹمنٹ میں فور کورٹرز کمی واقع ہوئی ہے ۔ اور 2009 سے مجموعی اکنامی کی شرح اور سال کا اختتام برے طریقے سے ہوا ہے ۔ معاشی اور اقتصادی جائزوں کے موسٹ ایکسپرٹ اور بااعتماد اخبار لکھتا ہے کہ اکنامسٹس جو تخمینے لگائے ہیں وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ حتیٰ کہ ابھی بریگزٹ ہوا ہی نہیں اور پہلے سے ہی یہ برطانوی اکنامی کو ایک اعشاریہ پانچ سے دو اعشاریہ پانچ فیصد جی ڈی پی تک کا نقصان پہنچا چکا ہے- اکنامی غیر یقینی صورتحال سے متاثر ہوتی دکھائی دیتی ہے- پہلے تو 2016 کے ریفرنڈم نے اقتصادی اور معاشی صورت حال کو فوری شاک پہنچایا اور اس کے بعد بھی اکنامی انڈرپرفارم کررہی ہے حتیٰ کہ اگر یوکے کو آرٹیکل 50 بات چیت کے لیے طویل ایکٹینشن بھی مل جائے، نیگیٹیو متاثر ہونے سے بچنے کا امکان پھر بھی کم ہی ہے ۔ وجہ، بزنسیز صرف ایک نو ۔ ڈیل بریگزٹ فیکٹر کی وجہ سے نہیں دیگر امکانات مارچ کے اختتام پر سپلائی چینز اور صارفین کے اعتماد میں شارپ فال، یہ سب عوامل برطانیہ کے مستقبل پر طویل غیر یقینی فضاطاری رکھ سکتے ہیں ۔ انویسٹرز کو غیر معمولی، ان جانے یا نامعلوم خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ سرمایہ دار اس طرح کی سچوئشن کے لیے تیار نہیں ہوتے بالفاظ دیگر جب کسی ملک پر کسی معاملے کے باعث سیاسی سطح پر غیر یقینی صورت حال چھا جائے ، پارلیمنٹ معطل بن کر رہ جائے، حکومت اور اپوزیشن دونوں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے درکار اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہوں۔ جیسا کہ اس وقت برطانیہ کے پارلیمنٹیرین بریگزٹ ایشو پر مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ تو قوی خدشات ہوتے ہیں کہ کاروباری افراد کی رقوم ڈوب نہ جائیں ۔ بریگزٹ کے بدترین اکنامک اثرات پڑنے کا زیادہ امکان طویل مدتی لانگ ٹرم خیال کیے جاتے ہیں جیسا کہ برطانیہ اپنے آپ کو ای یو سے تجارت ، ٹریڈ امور سے کاٹ رہا ہے جس سے سپیشل لائزیشن اور پیداواری گراوتھ کی صلاحیت کم پڑنے کے امکانات ہیں۔اور جب ایک مرتبہ کوئی ملک سیاسی عدم استحکام اور ڈس آرڈر کی وجہ سے انویسٹرز کا اعتماد کھو بیٹھے تو پھر کوئی کمپنی مینجمنٹ کبھی بھی اس ملک کے بزنس ماحول پر پہلے کی طرح نظر نہیں دوڑاتی۔ سینس آف ڈس آرڈر کی ایک مثال اس وقت بھی دیکھنے میں آئی مسز تھریسا مے کو ہاؤس آف کامنز میں جب تازہ ترین شکست کے موقع پر ملاحظہ کی گئی یہ مخصوص ووٹ لازمی طور پر ایک علامتی تھا: وزیراعظم کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ یہ ثابت کرتیں کہ پارلیمنٹ آئریش بارڈر بیک سٹاپ کو محفوظ بنانے کی تبدیلیوں کی ان کی کاوشوں کے پیچھے کھڑی ہے۔ بدقسمتی سے ستر سے زیادہ ان کی اپنے ٹوری ممبران پارلیمنٹ نے یا تو بے ضرر موشن کے خلاف ووٹ دیا یا ووٹ ڈالنے سے احتراز کیا۔ اپنے گھر میں وزیراعظم سے یونیٹی اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کنزرویٹیو کے ایک اتحاد جس میں بریگزیٹ کے حمایتی اور مخالف دونوں طرح کے ایم پیز شامل تھے نے اپنی وزیر اعظم کو سخت وقت دیا۔ قابل ذکر طور پر ایک ہارڈ لائن بلاک آف بریگزٹ حمایتی ممبران پارلیمنٹ نے ووٹ پر کسی بھی کمپرومائز کی کوششوں کو روک دیا اس رویہ کا یورپی یونین کے ستائیس ممالک کے لیڈروں پر مسز مے کے متعلق جو تاثر ابھرے گا اس پرکسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے اگر وزیراعظم کو پہلے کوئی مغالطہ یا شک و شائبہ تھا تو وہ اب کم ازکم دور ہوجانا چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی پر انحصار کرسکتی ہیں ۔ یہ کنفرم ہے کہ کوئی بریگزٹ ڈیل وہ پاس کرانے کے لیے صرف اپنی جماعت پر انحصار نہیں کرسکتیں ان کو دوسری جماعتوں کے ایم پیز کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ جبکہ یہ بھی صریح اور واضح ہے کہ وہ گھڑیال کو مارچ تک دھکیلنے کی خواں ہیں اور ایم پیز کے لیے اپنی ڈیل یا پھر نو ڈیل کی چوائس ہی چھوڑنا چاہتی ہیں ۔یہ ممکن ہے کہ یہ سٹریٹجی کام کر جائے لیکن حالیہ شکست سے لازمی طور پر یہ سوالات ابھرنے چاہیں کہ کیا وہ ریشنل ایکٹرز سے ڈیل کر رہی ہیں ؟ کہ درحقیقت ان کی جماعت کی اکثریت دلائل وجوہات سے ماورا نظر آتی ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا بھی ہے کہ آخری ہفتوں میں مسز مے معاملات سنبھالنے میں کامیاب ہوجائیں گی مگر ایم پیز کو یہ دیکھنا چاہئیے کہ اکنامک ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ ملک اتنا زیادہ عرصہ غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس تناظر میں لازمی ہے کہ کراس پارٹیز تمام ماڈریٹ ایم پیز آئندہ ووٹنگ کو ایک فائینل معرکے میں تبدیل کرکے میں نو ڈیل آوٹ کم کو بلاک کردیں ۔آرٹیکل 50پراسیس میں توسیع کی ضرورت ہے اور ممبران پارلیمنٹ ووٹ دے کراس کو یقینی بنائیں۔ اس بریگزٹ معاملے کو اب کسی کنارے پر لگایا جانا بے حد ضروری ہوگیاہے ورنہ بصورت دیگر ملک پر غیر یقینی سیاسی فضا کا برقرار رہنا معاشی سرگرمیوں کے حوالے بھی سود مند نہیں ۔
تازہ ترین