• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ بھی لاکھوں پاکستانیوں کی طرح ہر وقت نیوز چینلز دیکھتے رہنے کے عادی ہیں تو آپ یقینا اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ہمارے ملک میں خرابیوں کی اصل بنیاد کرپشن ہے۔ یہ وہی کرپشن ہے جس کی جڑ سے سیاست کا پودا اُگتا ہے ، عوام الیکشن میں ووٹ دے کر اس پودے کو سینچتے ہیں، اسے پودے سے تنا ور درخت بناتے ہیں اور پھر اسی درخت پر مزید کرپشن کا پھل لگتا ہے ۔آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ اگر پاکستان کے نظام میں کوئی تبدیلی مقصود ہے تو اس کرپٹ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کے موجودہ نظام میں تو صرف کرپٹ سیاستدان ہی غریب عوام کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں۔اس ملک میں تاجروں، صنعتکاروں سے لے کر ملک کی غریب اور مفلس عوام تک اس ملک کی باقی تمام قوتیں اسی نظام کی وجہ سے برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے یقیناپچھلے سال جاڑے کے موسم میں آنے والے سونامی کو قریب سے نہ سہی ٹی وی پر تو ضرور دیکھا ہوگا اور پھر چند دنوں قبل لاہور کی یخ بستہ دھندلی شام کو ہونے والے جلسے اور اس کے محرکات کو بھی بغور ” سمجھنے “کی کوشش کی ہوگی۔ کیو نکہ آخرکار آپ پاکستان کے باخبرشہری ہیں ۔ آپ کو تویہ بھی پتہ ہوگا کہ دراصل سیاستدان ہی اس ملک کی اچھی قسمت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسمبلیوں میں موجود ان بارہ ، چودہ سو کے قریب افراد نے ہی اس ملک کو لوٹا ہے اور ان افراد کے جانے سے ہی ملکی نظام میں بہتری ممکن ہے۔
جو آپ نہیں جانتے یا جانتے بوجھتے ہوئے میڈیا اور اس کی بدولت عوام اس حقیقت سے نظریں چرا لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ 1200 یا بارہ ہزار ا یا پھر ایک لاکھ افراد کی کہانی ہی کرپشن کی کہانی نہیں ہے، یہ تو اب شاید اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی داستان ہے۔ پاکستان میں پچھلی تین دہائیوں میں بنائی جانے والی دولت میں سے تقریبا ًساٹھ فیصد سے زائد غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت ہے۔ اس دوران دولت کی ایسی گنگا بہی کہ ہزاروں کیا لاکھوں افرادنے اس میں ہاتھ دھوئے۔ پہلے تو چیف آف آرمی سٹاف اور صدر جنرل ضیاالحق صاحب کے دور میں ہیروئین اور کلاشنکوف نے لاتعداد افراد کو لکھ پتی اور کروڑپتی بنایا، پھر باری آئی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی، دونوں جماعتوں نے اقتدار کی مسند پر دودو بارقبضہ جمایا۔ ان جمہوری ا دوار میں بھی لاکھوں افراد کرپشن کے پھل سے فیضیاب ہوئے۔ مگر بالعموم کرپشن کو اس وقت تک برا ہی سمجھا جاتا تھا۔ مگر پھر دور آیا جنرل پرویز مشرف صاحب کا یہ وہ دور تھا جب کرپشن کو برا سمجھنے کا رجحان بھی معاشرے سے ناپید ہوتا گیا۔انہوں نے اقتدار سنبھالتے وقت کرپشن کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کئے، نیب جیسا ادارہ بھی قائم کیا مگر پھر اپنی کرسی کے لئے سب قربان کر دیا ۔ اسی زمانے میں کرپشن کا پھل لاکھوں گھرانوں تک پہنچنے لگا، مشرف صاحب کے معاشی ماہرین جس ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا دم بھرتے تھے، وہ اور کہیں چلا ہو یا نہیں کرپشن کے معاملے میں بڑے زور و شور سے چلا۔ عوام الناس تک کرپشن عام کرنے کا سہراجنرل صاحب کے سر ہے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں چیئرمین نیب کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ اس وقت ہر روز ملک میں12ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے ۔ہماری سڑکوں پر دوڑتی پھرتی بیش قیمت گاڑیوں اور لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکلوں، دن بدن عام ہوتی ڈیزائنر شاپس اور مہنگے ترین ریستورانوں کو دیکھ کرا س بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چیئرمین نیب کا تخمینہ کس حد تک درست ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن کو پرولیج سے پروسیجر بنا دیا گیا ہے اور اب ہم اسی کا بھگتان بھگت رہے ہیں۔ اس ملک میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ حکمران کرپٹ ہیں اس لئے عوام کرپٹ ہیں۔۔۔ اگر واقعی محض سیاستدان کرپٹ اور کرپشن کے ذمہ دار ہیں اور اتنے ہی برے ہیں جتنا میڈیا انہیں پیش کرتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ عوام بار بار انہیں ووٹ دے کر منتخب کیوں کرتے ہیں؟ میں جانتا ہوں بہت سے دانشور یہ کہتے ہیں کہ عوام جاہل ہیں، درست فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر میرے نزدیک یہ دلیل بے معنی ہے۔ اگر عوام یہ جانتے ہیں کہ سیاستدان کتنے کرپٹ ہیں اور ٹیلی ویژن پر لئے جانے والے مختلف ساٹس میں بڑھ چڑھ کر حکمرانوں کی کرپشن کی بات کرتے ہیں ، تو پھر میں کیسے مان لوں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ووٹ کسے ڈالنا ہے اور کیوں؟
نیوز چینلز پر اپنے ملک کی حالت زاردیکھ کر ، اس پر کڑھ کڑھ کرخود کو ہائی بلڈپریشر کا مریض بنا لینے کے بعد اب تک آپ کو یہ بھی بخوبی معلوم ہو گیا ہوگا کہ ہمارے ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ موروثی سیاست ہے۔ ایک تو سیاسی نظام سارا کا سارا کرپشن سے بھرپورہے اور اس پر سوا سیر کہ سیاست پر چند ہی خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہ توبے حد ناانصافی کی بات ہے آخر سیاستدانوں کی آل اولاد کوئی دوسرا کام کیوں نہیں ڈھونڈ لیتی۔ بھلا یہ کوئی بات ہوئی کہ والدین بھی سیاستدان اور اولاد بھی۔ اب آ پ کو یہ بتانا تو بالکل بے سود ہوگا کہ آخرکوئی تو وجہ ہے کہ سری لنکا،بنگلہ دیش، بھارت کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی سیاسی خاندان ہیں جن کی کئی نسلیں ملک کے اقتدار کی دعویدار رہی ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں باراک اوباما کے حریف مٹ رومنی کے والد بھی امریکی صدارت کے لئے انتخاب لڑے تھے، بش خاندان کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں۔آذربائیجان کے موجودہ صدر اپنے والد کی وفات پر ملک کی صدار ت کے منصب پر فائز ہوئے، برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈ اپنے بھائی سابق برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کو ہرا کر اپنی پارٹی کے لیڈر بنے۔ ان دونوں بھائیوں کے والد بھی برطانوی سیاست میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔ آپ کو یہ سمجھانا بھی بہت مشکل ہوگا کہ سیاست میں موروثیت کوئی اتنی بری بات بھی نہیں ہے،دنیا بھر میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اصل میں دیکھنے والی بات جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا یہ ہے کہ کیا آنے والی نسل کے سیاستدان اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ ملک کو درپیش مسائل سے نبرد آزما ہو سکیں؟ کسی سیاسی گھرانے کا چشم و چراغ ہونا شاید سیاست میں داخلہ کے لئے سب سے بہتر موقع ہے لیکن سب اس میں کامیاب نہیں ہوتے۔ سیاست میں کامیاب ہونے کے اور بھی بہت سے بنیادی تقاضے ہیں۔کسی نوجوان کے سیاسی کردار کومحض موروثیت کی بناء پر برا کہنا درست نہیں کیونکہ ہمارے معاشروں میں ویسے بھی بہت سے پیشے مورثی ہوتے ہیں۔ یہاں بیوروکریٹ خاندان ہیں، ڈاکٹر خاندان ہیں، وکیل خاندان ہیں، فوجی خاندان، بزنس مین خاندان ہیں تو سیاسی خاندان کیوں نہیں ہو سکتے؟ اگر کسی علاقے کے عوام اس سیاسی خاندان کی کاردکرگی سے مطمئن ہیں تو ہم ، آپ اور دانشور کون ہوتے ہیں ان سے یہ حق چھیننے والے کے وہ کسے ووٹ دینا چاہتے ہیں؟
تازہ ترین