• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’چیف سیکریٹری پنجاب کوئی اور نوکری ڈھونڈ لیں‘

سپریم کورٹ کا ڈی جی اینٹی کرپشن کے خلاف توہین عدالت درخواست پر سماعت کے دوران کہنا ہے کہ چیف سیکریٹری پنجاب کوئی اور نوکری ڈھونڈ لیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈی جی اینٹی کرپشن کے خلاف توہین عدالت درخواست پر جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت چیف سیکریٹری پنجاب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں میئر لاہور اور ڈی جی ایل ڈی اے کی شکایت موصول ہوئی کہ اینٹی کرپشن والے میئر لاہور اور ڈی جی ایل ڈی اے کو ہراساں کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر اینٹی کرپشن کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا، عدالتی حکم کے فوراً بعد ڈی جی ایل ڈی اے کے خلاف پرچہ درج کیا گیا، چیف سیکریٹری صاحب؟ آپ لوگوں کے خلاف کیوں نہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ لوگوں کو ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے ذریعے بتایا جا رہا تھا، آپ نے عدالتی احکامات کو نظر انداز کیا ۔

چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ جناب میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، اینٹی کرپشن والوں نے پرچے سے قبل مجھ سے اجازت نہیں لی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اگر آپ کا کوئی تعلق نہیں تو جائیں اپنے لیے نئی نوکری ڈھونڈیں، سب سے بڑے صوبے کا چیف سیکریٹری کہہ رہا ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے؟ بتائیں کسے نوٹس کریں؟ ہم آپ سے اوپر نوٹس بھیجیں گے، نیچے نہیں، کیا ہم نوٹس چندی گڑھ بھیجیں؟

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اس معاملے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دفتر سے مشاورت نہیں کی گئی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اچھا آپ کو بھی علم نہیں، بتا تو دیں پنجاب میں حکومت کس کی ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیف سیکریٹری صاحب! آپ نے عدالتی حکم عدولی کرنے کے لیے ڈی جی ایل ڈی اے کو ہراساں کرایا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جو افسر عدالت کی معاونت کر رہا ہے اسے ہی ہراساں کیا جا رہا ہے، میرا خیال ہے یہ معاملہ نیب کا بنتا ہے، ٹھیک ہے چیف سیکریٹری صاحب؟ آپ ضمانت بعد از گرفتاری کرا لیں۔

چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن مجھے رپورٹ نہیں کرتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کب ریٹائر ہو رہے ہیں؟

چیف سیکریٹری پنجاب نے جواب دیا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن 22 فروری کو ریٹائر ہوں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہو رہی ہے؟

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے وزیر اعلیٰ کو خوش کر رہے ہیں، کیا ہماری حکم عدولی سے وزیراعلیٰ پنجاب خوش ہوتے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کے ہاتھ کھلوانے آئے تھے تاکہ دوسروں کے گلے دبا سکیں، انہوں نے ایل ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کے کام کرنا شروع کر دیے ہیں۔

ڈی جی اینٹی کرپشن نے کہا کہ جہاں غلط کام ہوگا وہاں ریاست کے مفاد کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ اختیار آپ کو کونسا قانون دیتا ہے، ہمیں بتائیں؟

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کے بیان کے بعد شک نہیں رہا کہ پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے، چیف سیکریٹری پنجاب کوئی اور نوکری ڈھونڈ لیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ موقع دیں جو غلط کام ہوا اس کی درستگی کریں گے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی استدعا پر سماعت 27 فروری تک ملتوی کر دی ۔

جسٹس عظمت سعید نے اس موقع پر کہا کہ اگر 27 فروری تک کام نہ ہوا تو وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کریں گے۔

تازہ ترین