• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

میں نے کتنے پھول چُنے اور اپنی شال میں رکھے....

  • تحریر: نرجس ملک
  • ماڈل : رباب حفیظ
  • شالز: مدینہ ہینڈی کرافٹس اینڈ کشمیر شالز
  • آرایش: SALEEK BY AINNIE
  • عکّاسی: ایم کاشف
  • لے آؤٹ: نوید رشید

شال اور سَرما کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خاص طور پر رُخصت ہوتی سردیوں میں جب بھاری بھرکم وولن سوئیٹرز، کارڈیگنز، لیدر، ڈینم جیکٹس، بلیزرز، ہوڈیز، ٹرینچ کوٹس، جمپرز، پُل اوورز، کیپس، مفلرز ، اُونی ٹوپوں، موزوں وغیرہ سے رفتہ رفتہ آزادی ملنے لگتی ہے، تو عموماً کم عُمر لڑکیاں ،بالیاں(جنہیں نسبتاً سردی زیادہ لگتی ہے اور اُن کا پورا موسم ِ سرما لال سُرخ ناکوں کے ساتھ شوں شوں کرتے، کانپتے، تھرتھراتے ہی گزرتا ہے) کاندھوں، شانوں پر یہی نرم و گرم شالیں لپیٹے یا سَر سے اوڑھے نظر آتی ہیں۔ اور ان گداز و دبیز، ریشم، پشمینے، دوشالے، زر بفت، اطلس و کمخواب کی، انڈین، کشمیری، سواتی، ملتانی شالوں میں سِمٹی سِمٹائی یہ کومل، سُندر، نازک اندام ناریاں، دوشیزائیں آنکھوں کو ایسی پیاری، معصوم، بھولی بھالی سی لگتی ہیں کہ جی چاہتا ہے، جاتی سردی کو ہاتھ جوڑ، مِنّت سماجت کر، کسی بھی طور کچھ دیر اور روک لیا جائے کہ پھر یہ حسین و دل نشین رُوپ بھلا سال بھر کہاں دیکھنے کو ملیں گے۔

اِن نرم و گرم نفیس، خُوب صُورت، رنگا رنگ شالوں کا موسم، ماحول اور اوڑھنے والیوں سے تو جو تعلق ہے، سو ہے۔ شاعری، نثر نگاری میں بھی جا بجا ان کا ذکر ملتا ہے اور بڑے اچھوتے، من موہنے انداز میں۔ مثلاً جَون ایلیا کے اشعار ہیں ؎ زندگی ہے خیال کی اِک بات …جو کسی بے خیال کی ہوگی… تھی جو خُوشبو صبا کی چادر میں… وہ تمھاری ہی شال کی ہوگی۔ وصی شاہ نے تو شال کی ردیف پر پوری غزلیں کہہ ڈالیں۔ ؎ آنکھوں میں چُبھ گئیں تِری یادوں کی کِرچیاں… کاندھوں پہ غم کی شال ہے، اور چاند رات ہے… دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا… شبنم کا یہ سوال ہے، اور چاند رات ہے… کیمپس کی نہرپر ہے تِرا ہاتھ، ہاتھ میں… موسم بھی لازوال ہے، اور چاند رات ہے… ہر اِک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس… ہر پھول پُر ملال ہے اور چاند رات ہے۔ اور ؎ جو اُس کے سامنے میرا یہ حال آجائے… تو دُکھ سےاور بھی اُس پرجمال آجائے… مِرا خیال بھی گھنگھرو پہن کے ناچے گا… اگر خیال کو تیرا خیال آجائے… ہر ایک شام نئے خواب اُس پہ کاڑھیں گے… ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آجائے… اِنہی دِنوں وہ میرے ساتھ چائے پیتاتھا… کہیں سے کاش مِرا پچھلا سال آجائے… یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہرنہ جائےوصی … اگر وہ سامنے وقت ِ زوال آجائے۔

اسی طرح کچھ اور متفرق اشعار ہیں۔ ؎ ہاتھ تمھارے شال میں بھی… کتنے ٹھنڈے رہتے تھے۔ ؎ جاڑے کی رُت ہے، نئی تَن پر نیلی شال… تیرے ساتھ اچھی لگی سردی، اب کے سال ۔ ؎ صندوق پرانی یادوں کا، تالا توڑ کے دیکھا تو… اِک ریشم کی شال ملی ہے، نیلے رنگ کی ساری ہے۔ ؎ گرم ہاتھوں سے آنچ آتی ہے… سردیوں کی وہ شال لگتا ہے۔ ؎ میرے پہلو میں تُو نہیں، نہ سہی… میرے شانے پہ تیری شال تو ہے۔ ؎ اوڑھ کے پِھرتی تھی، جو نیناں ساری رات… اُس ریشم کی شال پہ یاد کے بُوٹے تھے۔اور پھر نوشی گیلانی کی ایک خُوب صُورت غزل کے وہ اشعار کہ ؎ مَیں نے ساری خُوشبوئیں آنچل سے باندھ کے رکھیں… شاید ان کا ذکر تُو اپنے کسی سوال میں رکھے… کسی سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی… مَیں نے کتنے پھول چُنے اور اپنی شال میں رکھے۔

تو لیجیے ، آج ہم نے بھی بھیگی، ٹھنڈی رُت کو اِک آخری سلامی دینے کی خاطر (کہ کراچی میں تو کئی برانڈز نے اپنی اسپرنگ اور سمر کلیکشن متعارف کروانا بھی شروع کردی ہے) پشمینے، دو شالےکی ایک سے بڑھ کر ایک شال منتخب کرکے اپنی بزم کو گویا شعلۂ جوّالاکردیا ہے۔ہمارے اس لا جواب انتخاب میں سے، جس پر دل آجائے، بے دھڑک ہاتھ رکھ دیں (سیزن ختم ہو رہا ہے، سَستا ہاتھ آئے، تو بُرا کیا ہے۔ سنبھال رکھیے، اگلے سال کام آئیں گی) اور ہر رنگ، ہر انداز، ہر اِک پہ جچے گا، یہ ہماری ضمانت ہے۔ بلکہ بہت ممکن ہے، کوئی بے اختیارکہہ اُٹھے ؎ سانولے تَن پہ غضب دھج ہے، بسنتی شال کی… تو کوئی گُنگناتا پھرے ؎ اوڑھی جو اُس نے شال، تو پشمینہ جی اُٹھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین