• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو رواں ماہ کے آغاز میں اُس وقت شدید دھچکا لگا، جب اس ضمن میں کیا گیا ایک اہم بین الاقوامی معاہدہ ختم ہو گیا۔ یکم فروری کو امریکا نے گزشتہ 32برس سے اپنے اور رُوس کے درمیان قائم معاہدے، آئی این ایف ٹریٹی یعنی انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اس سے اگلے ہی روز فریقِ ثانی نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کیے گئے مذکورہ معاہدے سے برأت کا اعلان کر دیا۔ آئی این ایف ٹریٹی سے اچانک دست برداری کے اعلان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فریقین اسے منسوخ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ مذکورہ معاہدے کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ اب درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز تیار کرنے پر عاید پابندی ختم ہو گئی ہے۔ یہ میزائلز روایتی بھی ہو سکتے ہیں اور ایٹمی وار ہیڈز کو منتقل کرنے والے بھی۔ چُوں کہ عالمی طاقتوں میں شامل، چین اس معاہدے کا دستخطی نہیں ہے، لہٰذا اس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ آئی این ایف ٹریٹی پر سرد جنگ کے اختتام کے فوراً بعد عمل درآمد شروع ہوا تھا ۔ اس معاہدے پر 1987ء میں اُس وقت کے امریکی صدر، رونالڈ ریگن اور اُن کے رُوسی ہم منصب، میخائل گوربا چوف نے دست خط کیے تھے۔ معاہدے پر دست خط کی شان دار تقریب وائٹ ہاوس میں منعقد ہوئی تھی، جس میں دونوں ممالک کی اُس وقت کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت، اہلِ دانش اور دیگر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ موجودہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ بھی موجود تھے۔ اس موقعے پر ٹرمپ نے بھی وہ تقریر بڑے انہماک سے سُنی، جس میں گوربا چوف نے سرد جنگ کی عداوتوں کے تباہ کُن اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی اور تقریب میں موجود اکثر افراد کا خیال تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں امن کے ایک نئے دَور کا آغاز کرنے میں مدد ملے گی۔

بد قسمتی سے معاہدے کے دس برس بعد ہی خود رُوس نے اس پر شکوک و شبہات ظاہر کرنا شروع کر دیے اور 2005ء میں رُوسی صدر، ولادی میر پیوٹن نے اسے اپنے مُلک کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ یاد رہے کہ سرد جنگ کے بعد سوویت یونین، رُوس تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ نیز، یہ عالمی طاقت کے منصب سے بھی محروم ہو چُکا تھا، کیوں کہ اس کی اقتصادی صورتِ حال بہت زیادہ خراب تھی اور معاشی ابتری ہی اس کے انتشار کی ایک بڑی وجہ تھی کہ یہ اپنی وسطی ایشیائی ریاستوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ علاوہ ازیں، وہ وارسا پیکٹ میں شامل ممالک کو سہارادینے کے قابل بھی نہیں رہا اور ان تمام ممالک کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ سوویت یونین ان کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتا۔ لہٰذا، ان حالات میں رُوس کی اس معاہدے میں شمولیت اس لیے قابلِ فہم ہے کہ وہ ہتھیاروں سے زیادہ معاشی عوامل کو ترجیح دے رہا تھا۔ تاہم، اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چُرائی جا سکتیں کہ اقتصادی کم زوری کے باوجود رُوس کی فوجی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں، جن میں ہزاروں میل دُور تک مار کرنے والے طاقت وَر بیلسٹک میزائلز بھی شامل ہیں۔ اپنی اسی دفاعی طاقت کے پیشِ نظر ہی پیوٹن نے معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ رُوس کسی طور بھی عالمی طاقت سے کم نہیں اور اس کے لیے ہتھیاروں، بالخصوص ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل رہنا ضروری ہے۔

آئی این ایف ٹریٹی کی منسوخی: ایک عہد کا خاتمہ
امریکی صدر، رونالڈ ریگن اور اُن کے رُوسی ہم منصب،میخائل گورباچوف 1987ء میں معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے

یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز ہی پر پابندی کیوں عاید کی گئی تھی، جب کہ بین البر اعظمی میزائلز کی، جو تقریباً 6ہزار میل تک مار کرنے والے اور زیادہ مُہلک ہتھیار ہیں، روک تھام کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ اس بارے میں حربی ماہرین یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ جنگوں میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز کے استعمال کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ صرف 10منٹ میں میدانِ جنگ سے دُور اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں، جب کہ لانگ رینج میزائلز اپنے اہداف تک پہنچنے میں 30منٹ لیتے ہیں اور زیادہ تباہی پھیلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے ممالک نے بھی کم رینج والے میزائلز تیار کر لیے ہیں۔ مغربی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس وقت چین کے پاس ایسے 2,000میزائلز موجود ہیں۔

امریکا کی آئی این ایف ٹریٹی سے دست برداری کا سبب اس کا یہ دعویٰ ہے کہ رُوس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درمیانی رینج کے میزائلز تیار کیے ، جنہیں 9m729سے موسوم کیا گیا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے کے مطابق، ماسکو اس میزائل کو یورپ میں نصب کر رہا ہے اور تمام یورپی ممالک اس کا ہدف ہوں گے۔ خیال رہے کہ رُوس کے لیے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز ہی موزوں ہیں، کیوں کہ اس کی معیشت اسے مغربی ممالک کی طرح بڑے بڑے جنگی جہاز، بم بار طیّارے اور آب دوزوں سمیت دیگردیوہیکل دفاعی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ مغربی ذرایع ابلاغ کے مطابق، 9m729نامی ایک سو میزائلز 2016ء کے بعد، یورال کے ایک پہاڑی علاقے میں کیسپین سی کے ساحل پر نصب کیے گئے ، جو کسی بھی علاقائی جنگ کے لیے کافی ہوں گے۔ یاد رہے کہ اسی عرصے میں رُوس نے یوکرین میں مداخلت کرتے ہوئے کریمیا پر قبضہ کیا اور شام میں بم باری شروع کی۔ رُوس کی جانب سےمیزائلز کی تنصیب یورپی ممالک کے لیے اس وجہ سے باعثِ تشویش ہے کہ نیٹو کے پاس اس قسم کے میزائلز موجود نہیں، کیوں کہ معاہدے پر امریکا کے دست خط ہونے کی وجہ سے وہ یہ میزائلز تیار نہیں کر سکے۔ معاہدے سے دست برداری سے قبل امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس نومبر میں کہا تھا کہ ’’جب نہ صرف رُوس بلکہ کوئی اور مُلک بھی اس معاہدے کی پاس داری نہیں کر رہا، تو پھر امریکا کیوں کرے۔‘‘ پھر انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ ’’امریکا اب ایسے ایٹمی ہتھیار تیار کرتا رہے گا۔‘‘ دوسری جانب امریکا کے حربی ماہرین بھی اس معاہدے کی پیروی کو غیر سود مند سمجھتے ہیں۔

انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی کے تحت، امریکا اور رُوس نے 500سے 5,500کلومیٹر تک کی رینج کے تمام میزائلز کو تلف کر دیا تھا اور ان کے اس عمل کے پیچھے یہ سوچ کار فرما تھی کہ یہ میزائلز اس قدر تیزی سے تباہی مچاتے ہیں کہ رہنمائوں کو کچھ سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ یعنی انسانی جانوں کے بڑے پیمانے پر زیاں کے تدارک کے لیے یہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئی این ایف معاہدے کی رُو سے درمیانی رینج کے میزائلز کی آب دوزوں، بحری جہازوں اور طیّاروں پر نصب کرنے کی ممانعت نہیں تھی، لیکن اس عمل پر خاصی لاگت آتی ہے اور پھر اس کے نظم و نسق کے لیے تربیت یافتہ عملے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں زمین پر نصب کیے گئے رُوسی طرز کے میزائل نسبتاً سستے پڑتے ہیں اور انہیں آپریٹ کرنا بھی سہل ہوتا ہے۔ انہیں گاڑیوں میں رکھ کر کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے اور گھنے جنگلات یا پہاڑی سلسلوں میں چُھپایا بھی جا سکتا ہے۔ تاہم، اب یہ میزائلز نصب کرنے کے لیے جگہ کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ اب زیادہ تر ممالک اپنی حدود میں ایسے خطرناک ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دیتے، کیوں کہ اس سے ان کے خطّے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ 1960ء میں جب پاکستان نے یوٹو نامی جاسوسی طیّارے کے لیے پشاور کے قریب امریکا کو اڈّا فراہم کیا تھا، تو حقیقت عیاں ہونے پر سوویت یونین نے نہ صرف پاکستان کو خوف ناک دھمکیاں دی تھیں، بلکہ نقشے پر پاکستان کے گرد سُرخ دائرہ تک لگا دیا تھا، جب کہ اس واقعے کے تقریباً60برس بعد تو غیر مُلکی اڈّوں کی گنجایش تقریباً ختم ہو چُکی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر امریکا، نیٹو کے تحت رُکن ممالک کی حفاظت کے لیے بھی کسی یورپی مُلک میں میزائل نصب کرنا چاہے، تو بہت کم ممالک اس پر آمادگی ظاہر کریں گے۔ ہر چند کہ پولینڈ نے اس پر رضامندی ظاہر کی ہے، لیکن اسے اس کم زور معیشت کے حامل مُلک کی مجبوری قرار دیا جا رہا ہے۔ نیز، کسی دَور میں پولینڈ، وارسا پیکٹ کا ایک اہم رُکن تھا اور اس کا شمار نیٹو کے نئے رُکن ممالک میں ہوتا ہے۔ لہٰذا، پرانے ارکان کی رائے کو نظر انداز کر کے ایک نئے رُکن مُلک کے انتخاب کے نتیجے میں نیٹو میں اختلافات جنم لے سکتے ہیں، جو اس مرحلے پر امریکا کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ دریں اثنا، اس قسم کے میزائل 10منٹ سے بھی کم وقت میں رُوس کے اہم شہروں کو ہدف بنا سکتے ہیں، جس پر رُوس شدید ردِ عمل ظاہر کرے گا۔ دوسری جانب امریکا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو ترقّی یافتہ بنانے کے لیے آیندہ 30برس کے دوران1.7کھرب ڈالرز خرچ کرے گا، لیکن اگر امریکا، جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے خلاف میزائل نصب کرنے کی کوشش کرے گا، تو بہ مشکل ہی کوئی مُلک اسے جگہ فراہم کرنے پر آمادہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جاپان میں اوکی ناوا اور فلپائن میں سیوبک بےمیںامریکی فوجی اڈّوں کے خلاف مظاہروں کے بعد واشنگٹن کو ان علاقوں سے اپنے ہتھیار ہٹانے پڑے تھے اور امریکا کے حربی اور خارجہ امور کے ماہرین ابھی تک ان واقعات کو نہیں بُھولے ۔ اب اس مقصد کے لیے صرف گوام جیسے جزیرے ہی کو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن پھر امریکا کو چین کی ناراضی مول لینا پڑے گی۔

آئی این ایف ٹریٹی کی منسوخی: ایک عہد کا خاتمہ
ٹرمپ اور پیوٹن دونوں ہی انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی پر معترض تھے

آئی این ایف ٹریٹی کی منسوخی سرد جنگ کے بعد ہتھیاروں پر پابندی کے سلسلے میں ہونے والی مفاہمت کا اختتام ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بڑے اور چھوٹے ممالک دونوں ہی کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز تیار کرنے کے راستے میں کوئی رُکاوٹ در پیش نہیں۔ یہ بات دُرست ہے کہ ہر مُلک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہونا چاہیے، لیکن اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی انتہائی مُہلک ہتھیاروں کی دوڑ کے خدشے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ماہرین ان پر پابندی عاید کرنے کے حق میں ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کُھلی چُھوٹ ملنے سے ہر مُلک بے لگام ہو جائے گا اور نہ صرف علاقائی سلامتی بلکہ امنِ عالم کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ یہ نہایت افسوس ناک اَمر ہے کہ پابندی کے باوجود شام میں کُھلے عام کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے معصوم انسانوں کی اذیت ناک اموات بھی اقوامِ عالم کی آنکھیں نہیں کھول سکیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب دُنیا کو تباہی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حربی ماہرین کے لیے ایک اہم عالمی معاہدے کی منسوخی چیلنج بن چُکی ہے اور انہیں اس معاہدے کا نعم البدل تلاش کرنا ہے۔ پھر ہتھیاروں کی روک تھام کے ایک اور عالمی معاہدے کی مدّت بھی عنقریب ختم ہونے والی ہے۔ یہ معاہدہ اسٹارٹ (اسٹرٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی) کہلاتا ہے اور 2021ء میں اس کی مدّت ختم ہو رہی ہے۔ یہی وہ معاہدہ ہے کہ جو اس وقت دُنیا کے تمام ممالک کو ہتھیاروں کے عدم پھیلائو پر مجبور کرتا ہے۔ نیز، اسی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے ہی پر شمالی کوریا اور ایران پر پابندیاں عاید کی گئیں۔ مذکورہ معاہدے کی مدّت ختم ہونے کے بعد دُنیا ہتھیاروں کے پھیلائو پر عاید پابندی سے آزاد ہو جائے گی اور پھر وہی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی کہ جس کی وجہ سے دونوں عالم گیر جنگیں ہوئیں۔ اسی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اقوامِ متّحدہ وجود میں آئی اور پھر مختلف معاہدوں کے ذریعے خطرناک ہتھیاروں کے پھیلائو کو لگام دی گئی۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دفاع کے لیے طاقت ناگزیر ہے اور یہی دُنیا کا مروّجہ اصول بھی ہے اور اسے طاقت کے بَل پر یا غیر فطری طریقے سے ختم بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن ماہرین اور اہلِ دانش اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ طاقت کی بھی کچھ حدود ہونی چاہئیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقّی نے جہاں معیارِ زندگی کو بلند اور اوسط عُمر میں اضافہ کیا، وہیں ایسے ایسے خوف ناک ہتھیاروں کی ایجاد بھی ممکن بنا دی کہ جو چشمِ زدن میں شہر کے شہر کھنڈر میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے ایسے معاہدے اور اُن پر عمل درآمد لازمی ہے کہ جو ہتھیاروں کے پھیلائو میں مؤثر رکاوٹ ثابت ہوں اور کسی مُلک کو بھی اپنی دفاعی طاقت کے بَل پر خود سے کم زور مُلک کو ملیامیٹ کرنے کی اجازت نہ ہو۔

تازہ ترین