• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمبولنس سروس: سفری شفاخانے یا میت بردار گاڑیاں

سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘ اس مختصر لیکن جامع آیت میں انسانی جان کی حُرمت کا درس پنہاں ہے۔ شومئی قسمت، ہم زندگی کے دیگر معاملات کی طرح انسانی جانوں کا اِتلاف نہ روک کر بھی احکاماتِ الٰہیہ سے رُو گردانی و انحراف کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی اس غفلت کا احساس تک نہیں۔ یعنی بہ قول اقبال؎ وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا…کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔ آج ترقّی یافتہ دُنیا صحت مند اور طویل زندگی کے اسرار و رموز تلاش کرنے اور موت کو ٹالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، جب کہ ہماری اجتماعی بے حِسی اور مؤثر ہنگامی طبّی امداد نہ ملنے کے باعث، موت کے منہ میں جانے سے بچنے کے قابل کم از کم ایک تہائی مریض بھی لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔انسانی جان کی قدر و قیمت کے پیشِ نظر ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ای ایم ایس (ایمرجینسی میڈیکل سروسز) یا ہنگامی طبّی خدمات کی اہمیت پر زور دیتی ہے، کیوں کہ یہ وہ پہلا مرحلہ ہوتا کہ جس میںعموماً شدید زخمی اور سینے کی سخت تکلیف یا دائمی مرض میں مبتلا فرد کا ہیلتھ کیئر سسٹم سے رابطہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ آمدنی والے بیش تر ممالک میں، ترقّی یافتہ پِری ہاسپٹل ایمرجینسی سسٹمز یا ایمبولینس سروسز موجود ہیں۔ 

مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے والی یہ گاڑیاں جدید طبّی آلات اور تربیت یافتہ پیرا میڈیکل اسٹاف سے لیس ہوتی ہیں، جو مریض کی حالت اور کیفیت کے مطابق اسپتال پہنچنے سے قبل اُس کا علاج معالجہ کرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس پاکستان جیسے کم اور متوسّط آمدنی والے ممالک میں ان سفری شفا خانوں کی نہ صرف شدید کمی ہے، بلکہ سائرن بجاتی، بوسیدہ و خستہ حال اور طبّی سہولتوں اورتربیت یافتہ عملے سے عاری اکثر ایمبولینسز ’’میّت بردارگاڑیاں‘‘ بن چُکی ہیں اور ناگہانی صورتِ حال میں اسپتال تک پہنچے سے قبل کے علاج معالجے کی سہولتوں کے اخراجات مریض کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان ممالک میں ہونے والی ایک تہائی اموات کو اسپتال سے پہلے کے مرحلے میں ہنگامی طبّی امداد فراہم کر کے روکا جا سکتا ہے۔ آغا خان یونی ورسٹی، کراچی اور امریکا کے جان ہاپکنز انٹرنیشنل انجری ریسرچ یونٹ کے ماہرین پر مشتمل ٹیم کی جانب سے 2015ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، حادثات کے نتیجے میں 90فی صد تک اموات، پاکستان سمیت کم اور متوسّط آمدنی والے دیگر ممالک میں ہنگامی طبّی خدمات کے موزوں نظام کی موجودگی میں ہوتی ہیں اور انہیں 45فی صد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وسائل اور تربیت یافتہ عملے کی کمی کی وجہ سے پس ماندہ ممالک میں ہنگامی خدمات کو کم ترجیح دی جاتی ہے اور یہ سروسز اکثر و بیش تر علاج معالجے کی فراہمی کے بغیر صرف نقل و حمل کی سہولت ہی تک محدود ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں، ان ممالک میں عمومی طور پر شہری ایمبولینس سروسز پر بھروسا نہیں کرتے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے بڑے اسپتالوں کے شعبہ ٔ حادثات کار ُخ کرنے والے 25مریضوں میں سے صرف ایک ایمبولینس پر اعتماد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جان بچانے والی ایمبولینس سروسز کی کمی کئی برسوں سے ایک دیرینہ مسئلہ بن چُکا ہے۔

اس وقت کراچی میں کئی ایمبولینس سروسز فعال ہیں، جن میں ایدھی فائونڈیشن، چِھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن اور امن فائونڈیشن جیسے غیر منافع بخش اداروں کی ایمبولینسز قابلِ ذکر ہیں، مگر بدقسمتی سے سرکاری وسائل ہونے کے باوجود صرف امن فائونڈیشن کی ہنگامی طبّی امداد فراہم کرنے والی گاڑیاں ہی سفری شفا خانوں کے معیار پر پورا اُترتی ہیں، جنہیں لائف سیونگ ایمبولینسز کہا جاتا ہے، لیکن سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے امن ایمبولینسز کے بیڑے میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے ، کورنگی میں واقع امن فائونڈیشن کے دفتر کے دورے کے موقعے پر ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ بد قسمتی سے دو کروڑ سے زاید نفوس پر مشتمل کراچی شہر ہنگامی طبّی امداد کے ٹھوس بنیادی ڈھانچے جیسے انتہائی اہم سماجی عُنصرسے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد واقعات میں مناسب ابتدائی طبّی امداد نہ ملنے کی وجہ سےجائے وقوع ہی پر یا اسپتال منتقل کرتے وقت راستے میں مریض مزید پیچیدگیوں کا شکار یا موت کے منہ میں داخل ہو جاتے ہیں۔

اس صورتِ حال کے پیشِ نظر شہر میں جان بچانے والی یا لائف سیونگ ایمبولینسز کے ایسے نیٹ ورک کی موجودگی انتہائی ضروری ہے کہ جو شہر بَھر کے اسپتالوں اور کلینکس سے مربوط ہو۔ خیال رہے کہ کراچی میں ہر دو منٹ کے بعد کہیں نہ کہیں ناگہانی صورتِ حال جنم لیتی ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے رہنما اصولوں کی روشنی میں ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کراچی کو اس وقت کم از کم 200لائف سیونگ ایمبولینسز کی ضرورت ہے، جب کہ اس وقت شہر میں صرف امن فائونڈیشن کے پاس ہی ایسی محض 60امدادی گاڑیوں کا بیڑا موجود ہے، جو بہ مشکل 30فی صد ہنگامی حالات میں مریضوں کو ابتدائی طبّی امداد فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وسائل کی کمی کی وجہ سےاسے بقیہ افراد کو مجبوراً انکار کرنا پڑتا ہے۔ 2018ء کے آخر میں اس فائونڈیشن نے حکومتِ سندھ اور پیشنٹس ایڈ فائونڈیشن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت صوبائی حکومت ابتدائی طور پر فنڈز فراہم کرتے ہوئے موجودہ 60 ایمبولینسز کے بیڑے کو 2019ء کے آخر تک 200 ایمبولینسز تک بڑھائے گی۔ یہ کراچی میں ہنگامی طبّی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا گیا ایک اہم قدم ہے، جس پر ابھی عمل درآمد ہونا باقی ہے اور ان تمام ایمبولینسز کا نظم و نسق اسی فائونڈیشن کے پاس ہو گا۔

امن فائونڈیشن ایک غیر منافع بخش نجی ادارہ یا ٹرسٹ ہے۔ اس کے تحت دو الگ الگ ادارے قائم ہیں، امن ہیلتھ کیئر سروسز اور امن انسٹی ٹیوٹ آف ووکیشنل ٹریننگ یا امن ٹیک۔ فاؤنڈیشن کی آمدنی کا اوّلین ذریعہ زکوٰۃ و عطیات ہیں، جب کہ فنڈز کے حصول کے لیے مختلف اداروں سے شراکت بھی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر امن ٹیک کے لیے یو ایس ایڈ فنڈز فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، مختلف کاروباری ادارے اپنے سی ایس آر بجٹ سے اورپاکستان سمیت دیگر ممالک کی حکومتیں فائونڈیشن کی خدمات اور مہارتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسے فنڈز اورجدید طبّی آلات سے لیس ایمبولینسز مہیا کرتی ہیں۔ سروے کے موقعے پر ہماری فائونڈیشن کےجنرل منیجر ، خاقان سکندر سے بھی بات چیت ہوئی۔ برِاعظم افریقا سمیت دیگر ترقّی پزیر ممالک میں طبّی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خدمات انجام دینے والے خاقان سکندر نے بتایا کہ’’نظر انداز کیے گئے تعلیم و صحت جیسے اہم ترین شعبوں کی ابتر صورتِ حال کے پیشِ نظر 2008ءمیں سندھ میں امن فائونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی اور صحت کے شعبے میں بھی ہنگامی طبّی خدمات کا انتخاب کیا گیا۔2009ء میں پاکستان کی پہلی لائف سیونگ ایمبولنس سروس کا آغاز کیا گیا، جب کہ اس سے قبل مُلک میں صرف ریسکیو ایمبولینس سروس موجود تھی۔ تاہم، فائونڈیشن صحت کے دوسرے شعبوں جیسا کہ ٹیلی میڈیسن وغیرہ اور تعلیم کے میدان میں بھی خدمات فراہم کر رہی ہے۔‘‘ شہر میں جان بچانے والی ایمبولینسز کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’کسی بم دھماکے یا قدرتی آفت کی صُورت میں 50فی صد اموات ابتدائی طبّی امداد نہ ملنے یا غلط طبّی امداد کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت 60گاڑیاں ہیں، جو یومیہ 300سے 350انتہائی نازک حالت والےمریضوں کو ہنگامی طبّی خدمات فراہم کرتی ہیں اور گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے ہمیں روزانہ تقریباً ایک ہزار افراد کو انکار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے تخمینے کے مطابق، شہر میں ہر دو منٹ کے بعد ایک ایمرجینسی ہوتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہنگامی طبّی خدمات کے شعبے میں کس قدر وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی ادارۂ صحت کا ماننا ہے کہ کسی بھی شہر میں ایک لاکھ شہریوں کے لیے ایک عدد لائف سیونگ ایمبولینس کی موجودگی ضروری ہے، جب کہ کراچی میں3لاکھ شہریوں کے لیے صرف ایک جان بچانے والی ایمبولینس موجود ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران جمع کیے گئےاعداد و شمار کے مطابق، کراچی میں روزانہ ایسی 800قیمتی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں کہ جنہیں ابتدائی طبّی امداد دے کر بچایا جا سکتا تھا۔ ہمارے بیڑے میںاس وقت کُل60لائف سیونگ ایمبولینسزشامل ہیں ، جن میں سےدرجن بَھراے سی ایل ایس اے یا ایڈوانسڈ کارڈیک لائف سپورٹ ایمبولینسز ہیں۔ہماری تھرڈ کیٹیگری بی ایس ایل یا بیسک لائف سپورٹ کہلاتی ہے، جس میں پیرا میڈیکس بھی موجود ہوتے ہیں۔ تمام ایمبولینسز میں ایک جیسے طبّی آلات ہیں اور ہم ہنگامی حالات میں اے سی ایل ایس ایمبولینسز استعمال کرتے ہیں۔ ان میں آٹو ریڈنگ اسٹریچر، ریڑھ کی ہڈی کو سہارا دینے کے لیے اسپائن بورڈ، مریض کے سَر کو ساکت رکھنے کے لیے ہیڈ اممو بیلائزر، آگ بجھانے کا آلہ، اے ای ڈی یا آٹو میٹڈ ایکسٹرنل ڈی فبرللیٹر مشین ( یہ ایک ایسا خود کار آلہ ہے کہ جو ایک بٹن دباتے ہی مریض کو سی پی آر یا الیکٹریکل شاکس دینے کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتاہے)، ای سی جی دیکھنے کے لیے کارڈیک مانیٹر، مریض کے وائٹل سائنز مانیٹر کرنے کے لیے پیشنٹ مانیٹر، سینے میں ہوا کا راستہ صاف کرنے کے لیے سَکشن مشین، میڈیسن کیبنٹ (جس میں 56سے زاید ادویہ موجود ہوتی ہیں)، فرسٹ ایڈ بیگ، میڈیسن بیگ، دو عدد بڑے آکسیجن سیلنڈر (ہر ایک سیلنڈرمیں 48مکعب فٹ گیس موجود ہوتی ہے)، آکسیجن کی فراہمی کے لیے فلومیٹر، پورٹیبل آکسیجن سیلنڈر اور مریض کو مصنوعی تنفّس دینے کے لیے تین مختلف سائز کے ایمبو بیگز موجود ہوتے ہیں۔ ایمبولینس میں موجود عملہ سی پی آر، فرسٹ ایڈ اور زچگی کے اعتبار سے تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ فائونڈیشن کی نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تربیت فراہم کرنے کے لیے اربن ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ (یو ایچ آئی) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے اور ہمارا بیسک لائف سپورٹ پروگرام، اے ایچ اے (امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن) اور پیرا میڈک پروگرام، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی سے الحاق شدہ ہے۔ فائونڈیشن بین الاقوامی پروٹوکول اسٹینڈرڈ، ایم پی ڈی ایس ( میڈیکل پرائیوریٹی ڈسپیچ سسٹم) پر عمل پیرا ہے۔ جب ہماری ہاٹ لائن، 1021پر کال آتی ہے، تو تربیت یافتہ کال ٹیکر ایم پی ڈی ایس پر عمل کرتے ہوئے مریض سے چند سوالات پوچھتا ہے اور ان سوالات کے جوابات سے مریض کی حالت کا اندازہ لگا کر مطلوبہ ایمبولینس روانہ کر دیتا ہے۔ مریض کی حالت کے لیے الفا، براوو، چارلی، ڈیلٹا اور ایکو جیسے کوڈ مقرّر کیے گئے ہیں۔ ایک عدد اے سی ایل سی مع آلات کی خریداری پر 70لاکھ روپے لاگت آتی ہے، جب کہ اسے فعال رکھنے کے لیےسالانہ اتنی ہی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، جس میں نرس، پیرا میڈیکس اور ادویہ پر آنے والے اخراجات شامل ہیں۔ ایمبولینس کے ایک چکر پرکم و بیش 5ہزار روپے لاگت آتی ہے، جب کہ ہم شہریوں سے سروس کےمحض 500روپے وصول کرتے ہیں ۔ ‘‘

ایمبولینس سروسز پر عوام کے عدم اعتماد سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’ایمولینس سروس پر بھروسا نہ کرنے کا سبب ان کا ضروری طبّی آلات سے عاری اور شہریوں کا ہنگامی طبّی خدمات کی اہمیت سے نابلد ہونا ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہم نے دیگر اداروں کے تعاون سے ’’ایمبولینس کو راستہ دیں‘‘ کے نام سے ایک مُلک گیر آگہی مُہم چلائی تھی، جو خاصی کام یاب رہی۔ دراصل، ہمارے مُلک کے شہری شعور نہ ہونے کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ نہیں دیتے اور پھر دوسری جانب ہنگامی طبّی امداد کے بین الاقوامی معیارات سے نا واقف مختلف ایمبولینس سروسز کے ڈرائیورز بھی ایمرجینسی نہ ہونے کے باوجود سائرن بجاتے ہوئے گاڑیاں بھگا رہے ہوتے ہیں، جس سے شہری الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاہم، ہماری سروس پر شہریوں کے اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری ایمبولینسز میں اب تک کم و بیش 215بچّوں کی ولادت ہو چُکی ہے۔ نیز، امن ایمبولینسز کو ایشیا کی بہترین ایمبولینس سروس کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔‘‘ ایمبولینس سروس فراہم کرنے والے رفاہی اداروں کے ساتھ اشتراک سے متعلق کیے گئے سوال پر انہوں نے بتایا کہ’’ اگر عبدالستّار ایدھی مرحوم نہ ہوتے، تو ہم بھی نہ ہوتے ۔ ہم ان کی میراث کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بنانا چاہتے، بلکہ ہمیشہ سنگل انٹیگریٹڈ پلیٹ فارم کی بات کرتے ہیں، کیوں کہ دُنیا بَھر میں کسی بھی شہر کی ایمبولینس سروسز ایک چھتری تلے ہیلتھ کیئر انفرا اسٹرکچر سے جُڑی ہوتی ہیں اور تمام ایمبولینسز کا ڈیٹا ہر اسپتال میں موجود ہوتا ہے۔ ہم نے سندھ حکومت کو بھی یہ تجویز دی ہے۔ ہم ایدھی فائونڈیشن اور چِھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کو اپنے ساتھ اشتراک پر مجبور نہیں کر سکتے، کیوں کہ یہ دونوں ہی آزاد و خود مختار ادارے ہیں ۔ البتہ ہم انہیں اپنے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیش کش ضرور کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے سندھ حکومت کو بھی یہ آفر کی ہے کہ ہم سرکاری اسپتالوں میں کھڑے کھڑے بوسیدہ اور ناکارہ ہونے والی ایمبولینسز کو اپنے بیڑے میں شامل کرنے پر تیار ہیں۔ اس وقت شہر میں ایمبولینسز کی شدید قلّت ہے۔ ہمارے پاس اگر 8کالز آتی ہیں، تو ہم صرف اُس ایک مریض کو اپنی سروس فراہم کرتے ہیں کہ جس کی حالت سب سے زیادہ نازک ہو۔ کسی دَور میں ہمارے بیڑے میں 120ایمبولینسز شامل تھیں، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے اب ان کی تعداد 60رہ گئی ہے۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی، تو ہماری بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سندھ حکومت سے مزید ایمبولینسز اور وسائل کی فراہمی کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔‘‘ امن ایمبولینسز سے متعلق یہ شکایت عام ہے کہ یہ اپنی سروسز کے عوض ڈھائی سے پانچ ہزار روپے تک وصول کرتا ہے، جو ایک عام آدمی ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس سوال پر خاقان سکندر کا کہنا تھا کہ’’ ہماری فیس 500روپے ہے، لیکن اگر کوئی مریض اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد ہماری ایمبولینس پر گھر جانا چاہے گا، تو اس سے زیادہ رقم وصول کی جائے گی، کیوں کہ شہر میں ایمبولینسز کی قلّت ہے اور پھر ایسی صُورت میں زیادہ سے زیادہ معاوضہ ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی مستحقِ زکوٰۃ ہے، تو ان سے ہمارا عملہ مزید رعایت کرتا ہے۔‘‘

لائف سیونگ ایمبولینسز کے حوالے سے جب ہماری ایدھی فائونڈیشن کے نمایندے، انور کاظمی سے بات ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ’’ ہمارے بیڑے میں مجموعی طور پر 1900ایمبولینسز شامل ہیں۔ ان میں سے 550سندھ اور 400کراچی میں ہیں۔ شہرِقائد میں 60ایمبولینسز ان مخصوص مقامات کے لیے مختص ہیں کہ جہاں زیادہ حادثات رونما ہوتے ہیں۔ یہ گاڑیاں جائے حادثہ سے زخمیوں کو اسپتال منتقل کرتی ہیں اوران میں آکسیجن سیلنڈر، ایمبو بیگ اور خون روکنے کی ادویہ کے علاوہ پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہوتا ہے، جس کا کام بہتے خون کو روکنا اور سانس بحال رکھنا ہوتا ہے۔ گرچہ ہم 3سے 5منٹس میں جائے وقوع پر پہنچنے والی ان ایمرجینسی گاڑیوں کو لائف سیونگ ایمبولینسز کہتے ہیں، لیکن ان میں وہ تمام طبّی آلات اور اس قسم کا تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں ہوتا، جس سے امن ایمبولینسز آراستہ ہوتی ہیں۔ ہمارا امن فائونڈیشن کے ساتھ ایک معاہدہ ہے، جس کی تحت ہم حادثے کی صورت میں انتہائی تشویش ناک حالت والے مریضوں کو اُن کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’20کلو میٹر کے دائرے میں کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا جاتا ہے، جب کہ 20کلومیٹر سے زاید کی صورت میں200روپے اور 40کلومیٹر فاصلہ ہونے پر 400روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ نیز، ہماری ایمبولینسز دن میں کم و بیش 1400افراد کو خدمات فراہم کرتی ہیں۔‘‘ اس بارے میں چِھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سربراہ، رمضان چِھیپا کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت ہمارے بیڑے میں 300سے زاید ایمبولینسز شامل ہیں، جن میں سے کم و بیش 250کرا چی میں ہیں۔ یہ تمام گاڑیاں حادثات اور میڈیکل ایمرجینسی کی صورت میں خدمات انجام دیتی ہیں اور ان میں آکسیجن سیلنڈر، ابتدائی طبّی امداد کا سامان اورپیرامیڈیکل اسٹاف موجود ہوتا ہے۔‘‘ بیڑے میں لائف سیونگ ایمبولینسز کی عدم موجودگی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی ایمبولینسز کو سفری شفا خانے بنانے کی کوشش کی تھی اور بعض گاڑیوں میں جدید طبّی آلات اور ڈاکٹرز کی سہولت بھی دی تھی، لیکن بیش تر مریضوں اور ان کے لواحقین نے ایمبولینس میں علاج معالجے پر نہ صرف سخت مزاحمت کی، بلکہ ہمارے اسٹاف کو مارا پیٹا بھی، کیوں کہ شہری اسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز اور طبّی عملے کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ لہٰذا، ہم نے یہ سلسلہ ختم کر دیا۔ تاہم، اگر عوام میں اسپتال پہنچنے سے قبل علاج معالجے کی اہمیت کا شعور بیدار کیا جائے، تو ہم بھی اپنی ایمبولینسز کو سفری شفا خانوں میں بدل سکتے ہیں۔‘‘

امن فائونڈیشن حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اپنے نیٹ ورک کو توسیع دینے کی خواہش مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے آج سے تقریباً 4برس قبل سندھ حکومت سے مذاکرات کا آغاز کیا اورشہر میں جدید طبّی آلات سے لیس گاڑیوں کی کمی کے معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ کے اضلاع، ٹھٹھہ اور سجاول میں سندھ پیپلز ایمبولینس سروس شروع کی۔ بعد ازاں، سندھ حکومت نے2018ء کے آخرمیں بِلا معاوضہ لائف سیونگ ایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امن فائونڈیشن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت امن ایمبولینسز کے لیے 35کروڑروپے سے زایدرقم مختص کی گئی، لیکن یہ رقم آج تک فائونڈیشن کو نہیں مل سکی۔ نیز، معاہدے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ دسمبر 2018ءکے اختتام تک ایمبولینسز کی تعداد 100اور 2019ءکے اختتام تک200تک بڑھائی جائے گی، جب کہ مالی معاملات کی چھان بین کے لیے آڈیٹر کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔تاہم،ابھی تک اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شراکت داری کے تحت جو سندھ پیپلز امن ایمبولینس سروس قائم کی گئی ہے، وہ 2017ءکے اوائل سے فعال ہے اور حکومتِ سندھ 25ایمبولینسز چلانے کے لیے سرمایہ فراہم کر رہی ہے۔ اس سروس کے ذریعے اب تک 32ہزار سے زاید افراد کا علاج کیا جا چُکا ہے، جب کہ اسپتال منتقلی کے دوران جدید طبّی سہولتوں سے آراستہ اور میڈیکل اسٹاف کی زیرِنگرانی ایمبولینسز میں 80سے زاید بچّوں کی ولادت ہو چُکی ہے۔مذکورہ منصوبے کا آڈٹ گزشتہ برس ایک خود مختار ادارے سے کروایا گیااور صوبائی حکومت نے رواں سال بھی اس منصوبے کے لیے رقم فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ 

تازہ ترین