• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

11 سال بعد یورپی پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی میں مسئلہ کشمیر پر بحث

11 سال کے طویل عرصے کے بعد یورپین پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق میں مسئلہ کشمیر پر بحث کی گئی۔ یہ بحث اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ادارے OHCHR کی کشمیر پر گذشتہ سال جاری کردہ رپورٹ کے تناظر میں کی گئی۔

2007 کے بعد کشمیر کے مسئلے پر یورپین پارلیمنٹ کی کسی بھی کمیٹی میں کی جانے والی یہ پہلی ایکٹیویٹی تھی جہاں اس مسئلے کو باقاعدہ طور ایجنڈے کا حصہ بنا کر اس پر بحث کی گئی ۔ پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی سب کمیٹی میں مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے کا حصہ بنوانے کیلئے پاکستانی نژاد ایم ای پی واجد خان نے سخت محنت کی تھی۔

قبل ازیں جب کمیٹی کے چیئرمین انتونیو پینزیری کی صدارت میں کشمیر پر تبادلئہ خیال کی باری آئی تو ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہال میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، سفیر پاکستان نغمانہ عالمگیر ہاشمی، سفارت خانے کے تمام افسران، دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل، برطانوی پارلیمنٹ کے رکن راجہ افضل خان، مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین، کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید کے علاوہ برطانیہ اور بیلجئم سے بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد افراد موجود تھے۔

گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے چیئر مین مسٹر پنزیری نے انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں یورپین یونین کے عزم کو دہرایا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی مشکلات کے باوجود یہ کمیٹی انسانی حقوق کے مسئلے کو زیر بحث لانے سے کبھی نہیں گھبرائی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ایک طویل عرصے سے موجود ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ یورپ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قوموں کے درمیان موجود مسائیل کو گفتگو کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔

OHCHR کیجانب سے رپورٹ پر اظہار خیال کرنے کیلئے آئی ہوئی کرسٹین چُنگ نے رپورٹ میں موجود اس مسئلے کے تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے رپورٹ میں موجود بھارت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی جانب سے حق خود ارادیت سے انکار اور انڈین حکومت کی جانب سے آرمی کو دیے گئے استثنا کو ہدف تنقید بنایا۔

انہوں نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں، ماورائے ریاست قتل، پیلٹ گن کے استعمال کے ذریعے بینائی جانے اور دوسرے مظالم کو اعدادوشمار کے ساتھ بیان کیا۔

انہوں نے پاکستان کے بارے میں رپورٹ کے اندر موجود حصوں کو بھی دہرایا اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں قوم پرستوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً اٹھائے جانے والے اکثر نکات کا ذکر بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم 2016 سے دونوں ملکوں سے درخواست کر رہے تھے کہ وہ ہمیں اپنے ہاں آنے دیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

واجد خان ایم ای پی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے اندر یہ پہلی باقاعدہ گفتگو ہے جس کیلئے وہ چیئرمین کے شکرگزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر پر ایک ادارے کی رپورٹ تو موجود ہے لیکن وہ چشم دید کشمیری گواہ موجود نہیں جو اپنی آپ بیتی بتا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ بات پریشان کن ہونی چاہئے کہ کشمیر ابھی تک ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ اسی طرح گذشتہ 28 سال سے جاری مظالم کرنے والے کسی ایک بھی شخص کو سزا نہیں ملی۔

واجد خان نے اس ساری صورتحال پر یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس کی خاموشی پر سخت تنقید کی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل عام کو روکا جائے۔

ڈیوڈ مارٹن ایم ای پی نے اظہارخیالات کرتے ہوئے کہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آج کی گفتگو حکومتوں سے نہیں بلکہ انسانوں سے متعلق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت اور اس کا نام اس سے کمٹمنٹ بھی خوبصورت الفاظ ہیں لیکن اگر وہ انڈین حکومت میں موجود ہوتے تو وہ حکومت چھوڑ دیتے۔

جے سول ایم ای پی نے مطالبہ کیا کہ حکومت انڈین فوج کو دی گئی استثنا کی طاقت کو واپس لے۔

بیرونس نوشینہ مبارک ایم ای پی اور امجد بشیر ایم ای پی نے رپورٹ میں انڈین مظالم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

امجد بشیر نے دو اہم نکات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ دو فقرے ہماری یہاں یورپ کی سیاسی گفتگو میں سنائی دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک باہمی معاملہ ہے اور باقی دنیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تصورات غلط ہیں۔ آپ اقوام متحدہ کو آنے کی اجازت دیں اور دیکھیں کہ مسئلے کا حل کیسے نکلتا ہے۔

جولینن ایم ای پی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 2007 میں ہم نے اپنی پہلی رپورٹ دی تھی آج بارہ سال گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔

جولیوارڈ ایم ای پی نے کہا کہ میں مقبوضہ کشمیر کی ان خواتین اور بچوں کی آواز ہوں جو یہاں موجود نہیں لیکن جنگوں اور تحریکوں کے دوران یہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ انڈین فوجی اپنی مردانگی غرور کی تسکین کی خاطر مقبوضہ کشمیر میں عورتوں کے بال کاٹ رہے ہیں۔ یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ ہمیں تجارت کرتے ہوئے انسانی حقوق کو اہمیت دینی چاہئے۔

ایس سائمن ایم ای پی اور ٹی گریفن ایم ای پی نے اپنی اپنی باری پر اپنے لاکھوں کشمیری ووٹرز کے اس مطالبے کو دہرایا کہ انڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر شرمندہ ہونا چاہئے۔

دوسر جانب C.Tannock ایم ای پی اور G Van Orden ایم ای پی نے اپنے خیالات میں مکمل طور پر بھارت کی ترجمانی کی۔

آخر میں مختلف ممبران کی جانب سے اٹھائے جانے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مادام چنگ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر سے حقیقی واقعاتی شہادتیں موجود نہیں ہیں جبکہ پاکستان کے متعلق بھی مختلف لوگوں سے گفتگو کو اس رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیر کے دونوں حصوں میں جانے ہی نہیں دیا گیا۔ مجموعی طور پر تمام ممبران نے اس رپورٹ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کی بھر پور تائید کی۔

اس سیشن میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ ممبران کے علاوہ کوئی اور شخص اس گفتگو میں حصہ نہیں لے گا۔ اسی لئے ہال میں موجود ہونے کے باوجود وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر جو کہ اپنا موئقف بیان کرنے اور الزامات کا بہتر جواب دینے کی پوزیشن میں تھے اور جنہوں نے صرف اسی مقصد کیلئے پاکستان سے یہاں تک کا سفر طے کیا تھا، محروم رہے۔

گفتگو کے اس سیشن کے اختتام پر اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ یورپین ممالک اور یورپین قیادت آج کی صورتحال کو معمولی نہ سمجھیں۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا خطے پر بالادستی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کے ملٹری کمانڈر نے دھمکی دی ہے کہ وہ آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو انجام تک پہنچائے گا۔ جبکہ وزیر اعظم سمیت تمام انڈین قیادت دھمکی آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

سفیر پاکستان نغمانہ عالمگیر ہاشمی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہ ایک طویل عرصے کے بعد کسی آفیشل میٹنگ میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر ہونے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری شہداء کے خون کی خوشبو یورپین پارلیمان کے دروازوں پر دستک دینے لگی ہے۔

انڈیا نے تو اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا لیکن یورپین پارلیمنٹ نے اسے قبول کرلیا ہے۔

انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ آج کی گفتگو کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے۔

سفیر پاکستان نے واجد خان ایم ای پی کو ان کی محنت پر زبردست خراج تحسین پیش کیا اور دیگر پاکستانی نژاد ممبران کے کام کو بھی سراہا۔

تازہ ترین
تازہ ترین