• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس روز مجھے کالم لکھنا ہوتا ہے اس دن کویوم مشقت کہتا ہوں کیونکہ کالم نگاری بھی ایک طرح کی مشقت ہی ہے۔زندگی معمولات کے تابع ہوتی ہے اور یہی معمولات عادتیں بن جاتی ہیں۔ میں اپنی عادت کے مطابق ہر روز صبح اپنے سٹڈی روم میں آ جاتا ہوں اور اگرکالم لکھنا ہوتو لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ عام طور پر کالم کا موضوع اورنفس مضمون صبح ہی صبح ذہن پرخیال و خواب بن کر چھا جاتا ہے اور قلم پکڑتے ہی الفاظ بن کر کاغذ پر اترنے لگتا ہے۔ یوم مشقت کے وہ لمحات بھاری ہوتے ہیں جب ذہن کسی خیال سے خالی ہوتا ہے اور سوچ کوکالم کے نفس مضمون کی تلاش ہوتی ہے۔ عادتاً میں ان موضوعات سے کنارہ کش رہتا ہوں جن پراخبارات میں کالموں کی بھرمار نظرآتی ہے یا جن پر تجزیات کے سمندر ٹھاٹھیں مارتے نظر آتے ہیں البتہ انہیں سونگھنا یا پڑھنا مجبوری ہوتی ہے۔ جب یہ طومار، بہتات اور عشق ستم طبیعت کو اچاٹ کردے تو میں اخبارات میں نئے موضوعات کی تلاش کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہوں کہ آخر انسان ایک ہی قسم کی باتوں اور گھسے پٹے الفاظ کو کب تک پڑھے۔
آج کا یوم مشقت بھی عجیب ہے کہ طبیعت لکھنے پر آمادہ نہیں اور ذہن میں کوئی مخصوص موضوع مجھے لکھنے کی ترغیب نہیں دے رہا۔ گزشتہ چند دنوں سے ایک ہی جیسے درجنوں کالم پڑھ پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے طبیعت ”بخاری“ سی ہوگئی ہے۔ آپ لفظ بخاری پڑھ کر بخارا نہ چلے جائیں اورحیران بھی نہ ہوں میں دراصل بخار کی مونث کو بخاری کہتا ہوں۔ جسم بخار سے تپ رہا ہو تو آپ بخار میں مبتلا ہیں لیکن اگر محض حرارت ہو، بیزاری ہو تو ایسی طبیعت کو بخاری کہتے ہیں۔ بخاری حضرات میری جسارت کابرا نہ منائیں کیونکہ یہ فیورش (Feverish) کا ترجمہ ہے۔ Fever کا ترجمہ بخار ہوتا ہے تو آخر فیورش کا ترجمہ بھی ہونا چاہئے۔ یہ اسی قسم کا ترجمہ ہے جس طرح کا ہم سکول کے زمانے میںآ لو بخارے کا ترجمہ کرتے تھے۔ میں اردو میڈم سکول کا ہونہار طالب علم تھا۔ انگریزی سے انگریزوں سے نفرت کے سبب کوئی خاص محبت نہیں تھی۔ ہمارے ٹیچر بھی اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے بڑی ماریں کھا کر اور نعرے لگا کر انگریزوں سے آزادی لی تھی۔ ان کے نزدیک انگریزوں سے آزادی کا مطلب انگریزی سے بھی آزادی تھا۔ اکثر استاد مڈل پاس اورمیٹرک پاس تھے۔ اگر پاکستان نہ بنتا توان بیچاروں کو نوکریاں نہ ملتیں کیونکہ ان آسامیوں پر ہندو اساتذہ براجمان تھے۔ میں نے جب قیام پاکستان کے بعد سکول جانا شروع کیا توہمارے حصے میں ایسے استاد آئے جنہیں ہندوؤں کے خلا کوپر کرنے کے لئے استاد بنا یا گیا تھا چنانچہ ان بیچاروں کو انگریزی اتنی ہی آتی تھی جتنی آج کل ہمارے ایف اے بی اے کو آتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب ہم آلوبخارے کا ترجمہ (Patato Fever) یعنی آلو کو بخار چڑھاتے تھے تو ہمارے انگریزی کے استاد مسکراکر سنجیدہ ہو جاتے کیونکہ اس دور میں استاد اورتھانیدار کے لئے مسکرانا منع تھا۔ مسکرانااس لئے منع تھا کہ اس سے ڈسپلن اور رعب داب متاثر ہوتا ہے اور طلبہ لبرٹی لینے لگتے ہیں۔ آج کل کسی بچے کو استاد جسمانی سزا دے تو میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔ والدین عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ والدین کی تنظیمیں بینرز اٹھا کرسکولوں کے سامنے احتجاج کرتے نظر آتی ہیں۔ ہمارا زمانہ طالب علمی اس سے بالکل مختلف تھا بلکہ اس کے برعکس تھا۔ انگریز نے یہاں ایک صدی تک ڈنڈا چلایا تھا اور ڈنڈے سے حکومت کی تھی چنانچہ ڈنڈا ہی ہمارا قومی نشان تھا اور ڈنڈے کو سکولوں میں ”پیر“ کہاجاتا تھا۔ مطلب یہ کہ جس طرح اصلی اور جینوئن پیر بھٹکے ہوئے مرید کوراہ راست پر لاتا ہے اسی طرح استاد کا ڈنڈا نالائق، لاپرواہ اورہوم ورک نہ کرنے والے گستاخوں کو راہ راست پر لاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی راہ راست پرلاتے ہوئے ہمیشہ کیلئے سکول سے بھگا دیتاتھا۔ اس دور میں سکول سے بھاگنے اور پھرگھر سے بھاگنے کا رواج عام تھا کیونکہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ گھر سے بھاگیں گے تو اغوا برائے تاوان والوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے یا کسی دہشت گرد تنظیم کے قابو آجائیں گے جوبرین واشنگ کرکے خودکش حملے کے لئے روانہ کردے گی۔
ہمارے سکول ماسٹر اکثر ہوم ورک نہ کرکے آنے والے طلبہ یا استاد کی آمد پر کھڑے نہ ہونے والے گستاخوں یا کسی معصوم دوست کی شرارت پر مسکرانے والے بدتمیزوں کو ڈنڈے سے مارتے ہوئے یہ ”اقوال زریں“ اسی طرح لہک لہک کر ”پڑھتے“ تھے جس طرح آج کل پنجاب کے خادم اعلیٰ نوجوانوں کو گانے سنا کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ زریں قول تھا” ڈنڈا پیر اے بگڑیاں تگڑیاں دا“ (ڈنڈا بگڑے تگڑے ہوؤں کا پیرہے) زمانہ بدل گیا ہے اورقدریں بھی بدل گئی ہیں۔ آج کل استاد شاگرد کو ڈنڈادکھائے توشام تک نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور والدین استاد سے انتقام لینے سکول پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے دور میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ استاد نرمی دکھانے کا جرم کرتا تو والدین خود سکول پہنچ جاتے اور استاد سے اپنے لاپرواہ لخت جگر کی مرمت کے لئے التجا کرتے۔ رمضان کا مہینہ تھا، روزے رکھنے کا رواج تھا۔ ہم چار دوستوں نے روزے کی بھوک پیاس کو ٹالنے کے لئے تاش کھیل کر وقت گزارنے کا منصوبہ بنایا چنانچہ ہم سکول سے واپس آ کرافطار تک تاش کھیلنے کی عبادت کرتے۔ ابھی یہ ثواب کماتے دو تین دن ہی گزرے تھے کہ حساب کے پیریڈ میں ہیڈماسٹر صاحب کا چپراسی آیا اور اس نے استاد سے میرا نام لے کر کہا کہ اسے صاحب نے بلایا ہے۔ میں جب ہیڈماسٹر صاحب کے خوفناک دفترمیں پہنچا تو دیکھا کہ میرے تاش والے تین دوست مرغا بنے ہوئے تھے جسے ہماری زبان میں کان پکڑنا کہا جاتا تھا۔ کمرے میں پاؤں رکھتے ہی گرجدار آواز آئی ”کان پکڑو“ چنانچہ میں نے بھی کان پکڑ لئے۔ ہیڈماسٹر صاحب ہمیں کان پکڑوا کر سکول کے راؤنڈ پہ نکل گئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ہم سعادت مند بچے ہیں اور ان کی غیرحاضری میں بھی حکم عدولی نہیں کریں گے نہ ان کے اعتماد کو ٹھیس لگائیں گے۔ کوئی نصف گھنٹہ بعد جب وہ سکول کا دورہ مکمل کرکے واپس تشریف لائے توہمیں حکم ہوا ”کھڑے ہوجاؤ“ ہم کھڑے ہوگئے۔ اس دور میں گاؤں یا قصبے میں صرف دو ایسی شخصیات ہوتی تھیں جن کے ہاتھ میں ہر وقت بانس کا لچکدار ڈنڈا لہراتا نظر آتا تھا۔ اول تھانیدار دوم ہیڈماسٹر صاحب۔ دونوں کی شخصیتیں ڈنڈے کے بغیر ادھوری لگتی تھیں۔ ہم کھڑے ہوئے۔حکم ہوا ”ہاتھ نکالو“ ہم نے بڑی سعادت مندی سے ہاتھ آگے کردیئے۔ انہوں نے ہر ایک کے ہاتھوں پر دو دو ڈنڈے زور سے برسائے۔ دو ڈنڈوں کاراز بھی سمجھ لیجئے۔ یہ طالب علم کی صوابدید ہوتی تھی کہ وہ دونوں ڈنڈے یعنی ضربیں ایک ہاتھ پہ کھاتا ہے یا دو پر… عادی مجرم ایک ہی ہاتھ پر کئی کئی ڈنڈے کھا لیتے تھے جبکہ مجھ جیسے نوگرفتار ایک ہاتھ پرایک ہی ضرب برداشت کرسکتے تھے۔ ہیڈماسٹرصاحب ڈنڈے مارتے جاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ کہتے جاتے تھے ”آئندہ تاش کھیلی توہاتھ توڑ دوں گا۔“ ہماری تربیت ملاحظہ فرمایئے کہ ہمیں یقین تھاہیڈماسٹرسچ بولتے ہیں اور قول کے پکے ہیں۔اگر ہم نے آئندہ تاش کوہاتھ لگایا تو وہ ہمارے ہاتھ توڑ کر ہمارے حوالے کریں گے اور کہیں گے کہ ”جاؤ اب ان کی مرمت کروا لو۔“ اس مرمت کے پس پردہ بھی ایک کہانی ہے۔ ایک سینئرطالب علم نے کچھ اس طرح کی حرکت کی کہ ہیڈماسٹر صاحب نے اسے اپنے دفترمیں بلاکر بارہ ڈنڈے مارے۔ کئی روزتک اس کی والدہ اپنے نورچشم کے ہاتھ سینکتی رہی اور آنسو پیتی رہی۔ لیکن اس کے بعد اس طالب علم نے کبھی اس گناہ کی راہ نہیں دیکھی۔ ہم ڈنڈے کھا کر اس تحقیق میں مبتلا ہوئے کہ ہیڈماسٹر صاحب کو ہماری ”تاش بازی“ کی خبر کیسے ملی؟ شام تک راز کھل گیا۔ تاش کے ایک ساتھی کے والدگرامی نے نہ صرف ہیڈماسٹر صاحب کو ہماری اخلاق باختگی کی اطلاع دی تھی اورتاش پارٹی کے اسمائے گرامی بتائے تھے بلکہ ڈنڈے کے پیر سے ہمیں راہ راست پر لانے کی بھی التجا کی تھی۔ وہ بھی خوب دور تھا۔ استادوں نے کردارسازی کا فرض بھی اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ جو لڑکا والد صاحب سے گستاخی کرتا اس کی شکایت ہیڈماسٹر صاحب کوپہنچ جاتی۔ پھروہ ڈنڈے سے اسے اخلاق سکھاتے۔ ہمارے ایک کلاس ٹیچرسکول کے بعد شام تک محلوں، گلیوں اور سڑکوں کے چکر لگاتے رہتے جہاں سکول کے طلبہ بنٹے یا اخروٹ کھیلتے نظرآتے ان کی وہیں ڈنڈے سے مرمت کر دیتے۔ بعد ازاں وہ انگلستان چلے گئے اور زندگی سکول میں پڑھاتے گزار دی۔ نہ جانے ان کا ڈنڈے مارنے کا چسکا کیسے پورا ہوتا تھا؟
گزشتہ دنوں میں ایک رئیس دوست کے ہاں بیٹھا تھا۔ دیکھا کہ ان کا صاحبزادہ والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے خاصی ”تڑبڑ“ کر رہا ہے۔ مجھے اپنے ہیڈماسٹر صاحب بہت یاد آئے۔ اے کاش! یہ خبر ان کو ملتی تووہ اس لاڈلے کی ساری ”تڑبڑ“ نکا ل دیتے۔ میں زندگی کی سات دہائیاں مکمل کرنے کے قریب ہوں لیکن چند روز قبل میں نے سوئی میں دھاگہ ڈال کر اپنی نظر کا امتحان لیا اور کامیاب رہا۔ میں گاؤں میں جاتا ہوں تو مجھے خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ میرا کوئی کلاس فیلو نظر کی عینک نہیں لگاتا۔ بھلا کیوں؟ میں نے راز جاننے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ یہ سب سکول کے دور میں کان پکڑنے اور مرغہ بننے کا اعجازہے۔ جب سے استادوں نے ڈنڈا چھوڑا ہے طلبہ گستاخ ہوگئے ہیں۔ جب سے استادوں نے طلبہ کو مرغا بنانا چھوڑا ہے عینکوں کا کاروبار چمک اٹھا ہے۔ آج آپ کو ہر دوسرا طالب علم نظر کی عینک لگائے نظرآتا ہے۔ (باقی انشاء اللہ پھر )
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
تازہ ترین