• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی ہیجان انگیزی بمقابلہ پاکستانی معاملہ فہمی!

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے ارکان کے نام اپنے مکتوب میں درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے پاکستان کو دی گئی دھمکیوں کے تناظر میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے عالمی ادارہ کی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان کا عالمی ادارہ سے رجوع کرنا وزیراعظم عمران خان کے قوم سے کیے گئے خطاب کے بعد اس معاملہ فہمی کی ایک اور مثال ہے جس کی طرف بھارت کو بلانے کے لئے 1947ء میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت سے پاکستانی قیادت کوشاں ہے۔ نئی دہلی کے حکمرانوں نے بس سروس کے بعد تیتری نوٹ اور چکاں دا باغ کے درمیان ہونے والی آر پار تجارت بھی معطل کر دی جبکہ واہگہ بارڈر پر پاکستان سے سیمنٹ اور دوسرا سامان لے جانے والے ٹرک روک دیئے گئے، بھارت سے کئی زرعی اشیاء کی پاکستان میں ترسیل بند کر دی اور راجستھان میں موجود پاکستانی سیاحوں کو 48گھنٹے میں نکلنے کا حکم دے کر ایک ہیجان انگیز فضا پیدا کر دی گئی۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی، راجستھان میں جنگی مشقوں، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے فوج کو مناسب وقت پر کارروائی کی ’’اجازت‘‘ اور بھارتی وزیر دفاع سیتھا رامن کے بیان پر مبنی خبروں کو ملا کر دیکھا جائے تو خطے کے امن کے حوالے سے خدشات بے وزن نہیں قرار دئیے جا سکتے۔ ہیجان انگیزی کی یہ فضا 14فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقہ اونتی پور میں بھارتی سیکورٹی کی بس پر خودکش بم حملے میں 44بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے جس واقعہ کو بنیاد بنا کر پیدا کی جا رہی ہے اس میں حملہ آور فرد کا تعلق خود بھارتی ذرائع مقبوضہ کشمیر سے بتاتے ہیں، جہاں کے عوام 1931ء سے اپنی آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب بھارت نے تقسیمِ ہند کے ہر فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ بننے والے جموں و کشمیر میں فوج بھیجی اور مزاحمت کاروں کے آگے بھارتی فوج کے ہتھیار ڈالنے کا خطرہ نظر آیا تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں جا کر وعدہ کیا کہ کشمیری عوام استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے، اس کا احترام کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام کی چوتھی نسل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کے فیصلے کے حق کے حصول کے لئے بھارتی فوجوں کے مظالم کے باوجود سینہ سپر ہے۔ اس پُرامن جدوجہد کے متشددانہ پہلو اختیار کرنے پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے بھارتی حکمرانوں کو اُن وجوہ پر غور کرنا چاہئے جو کشمیری نوجوانوں میں موت کا خوف ختم کرنے کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے درست طور پر پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے جسے مسترد کرتے ہوئے بھارت اپنی طرف سے ماضی میں دیئے گئے ایسے شواہد کا حوالہ دیتا ہے جو مبصرین کے خیال میں خود بھارت کے فہمیدہ طبقے کے لئے بھی ناقابلِ فہم ہیں۔ انتہا پسندی یا دہشت گردی پاکستان کے کنٹرول میں ہوتی تو وہ خود دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک نہ ہوتا ۔وزیراعظم عمران خان نے پہلی بار بھارت کو دہشت گردی سمیت ہر مسئلے پر مذاکرات کی جو پیشکش کی وہ اسلام آباد کے اس سابقہ موقف سے بہت آگے کی بات ہے جس میں کشمیر کے بغیر مذاکرات کو بے سود کہا جاتا تھا۔ یہ ایک نئی اور بڑی تبدیلی ہے۔ بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو وہ فراہم کئے جانے چاہئیں، جن پر کارروائی کرنے کی وزیراعظم پاکستان نےضمانت لی ہے۔ یہ بات بہرطور پاکستان کے مفاد میں ہے کہ کوئی اس کی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کرے اور نہ ہی باہر سے آکر یہاں دہشت گردی کرے۔ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل جنگ میں نہیں مذاکرات میں مضمر ہے۔ پاکستان اور بھارت اقوام متحدہ اور اہم ممالک کے تعاون سے جتنی جلد مذاکرات کی میز پر آئیں گے، اتنا ہی ان دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔

تازہ ترین