لندن کے فلیٹ میں محمد علی جناح محو خواب تھے کہ اچانک ان کی آنکھ کھل گئی، کمرہ خوشبو سے بھرا ہوا تھا، سامنے ایک انتہائی برگزیدہ شخصیت کھڑی تھی۔ نور ہی نور، درو دیوار تک جیسے جگمگا رہے تھے، انہوں نے احترام بھری حیرت سے پوچھا ’’آپ کون ہیں‘‘ جواب آیا ’’تمہارا پیغمبرتم ہندوستان واپس جائو، وہاں تمہاری ضرورت ہے‘‘۔ ہجرت کر کے برطانیہ گئے ہوئے اپنی بے سمت قوم سے مایوس جناح مبہوت رہ گئے، حکم ملتے ہی اِس یقین کے ساتھ واپس آگئے کہ بر صغیر میں ایک مسلم مملکت کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے۔ یہ واقعہ انہوں نے مجھے سنایا ہے جنہوں نے کبھی کسی سنی سنائی بات کو روایت نہیں کیا۔
مولانا عبدالستار خان نیازی قائداعظم کے ساتھی تھے، انہوں نے جامعہ اکبریہ میانوالی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ’’صرف یہی نہیں کہ پاکستان ستائیس رمضان المبارک کی ضیاء بخش رات کو وجود میں آیا۔ وہ برکتوں والی رات لیلۃ القدر کی عظیم القدر رات تھی۔ وہ رات جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ مجھے علم الاعدادسے بھی دلچسپی ہے۔ میں نے تحقیق کی کہ بانوے کا عدد پاکستان کا فون کوڈ کیوں ہے، یہ کیسے پاکستان کو ملا تھا۔ پتہ چلا بس اتفاق سے پاکستان کے حصے میں آ گیا۔ بانوے محمد کے عدد ہیں یعنی جو شخص بھی پاکستان میں کسی سے بات کرنا چاہے تو پہلے محمدکے عدد ڈائل کرے۔
یہ وہ واقعات ہیں جنہوں نے ہمیشہ میرے دل کو امید سے لبریز رکھا مگر یہ تاریک خیال بھی ذہن میں لہراتا رہا کہ اس برکتوں والی سر زمین میں جھوٹ، چوری، غربت اور پسماندگی کا راج کیوں ہے۔ بندہ مزدور کے اوقات کیوں تلخ ہیں۔ دہقان قبر سےاگلا ہوا مردہ کیوں ہے۔ شاید اس لئے کہ ہم نے مفادِ ذات کی خاطر انہیں حکمرانی کا ووٹ دیا جو پھانسیوں پر لٹکنے کے قابل تھے۔ قومی خزانے کی چابیاں چوروں کے حوالے کیں۔ عوام کی حفاظت پرقاتلوں کو مامور کیا۔ مریضوں کو ڈاکٹر بنا دیا۔ قفل توڑنے والوں کو انجینئرنگ کی ڈگری دی، ڈاکوئوں کو تھانیدار بھرتی کر لیا۔ افسر شاہی انہیں بخشی جن کے نام تھانوں میں رقم ہونا تھے۔ آئینوں کے سامنے اندھوں کو بٹھانے کا یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں، حالات نہیں بدلے، حتیٰ کہ جسم دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ہم اکہتر کی جنگ ہار گئے۔ افسوس کہ اس کے بعد بھی ہوش نہ آیا ایٹم بم بنا لیا مگر معاشی خستگی بڑھتی رہی۔ تعلیمی نظام تباہ ہوتا گیا، صحت کے شعبے میں معاملہ جعلی ادویات کی بہتات تک پہنچا۔ ٹیکس چوری ایسی کہ دنیا کے کسی دیس میں نہ ہو گی۔ توانائی کا بحران قیامت خیز ہو گیا۔ منی لانڈرنگ کے پھاٹک کھل گئے۔ اربوں کے بے نامی اکاؤنٹس سامنے آنے لگے۔ ایسے میں عمران خان کی حکومت ا ٓگئی۔ ایساشخص حکمراں ہوا جو مدینہ کی گلیوں میں ننگے پائوں پھرتا ہے۔ جس کا نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے۔ جب عنانِ اقتدار سنبھالی تو پریشان ہو گیا، خزانہ خالی کھربوں کا ادھار اور پوری قوم ہراساں، توقعات کی جھولیاں پھیلائے کھڑی تھی۔ اس کے آتے ہی ڈالر ایک سو چالیس پر پہنچ گیا۔ مہنگائی بڑھ گئی مگراس نے بھی اللہ کا نام لےکر کمر باندھ لی اور پھر ہماری آنکھوں نے دیکھا آدھی صدی بعد قدرت پاکستان پر مہربان ہو نے لگی۔ شہزادےکی آمد سے عمران خان کے مخالفین ہی پریشان نہیں ہوئے، مخالفینِ پاکستان کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھ گئی۔ مہمان کا کوئی لمحہ پھیکا نہیں تھا۔ ہر لمحہ محبت کا تھا، نصرت کا تھا، مسرت کا تھا، رہزن اور رہنما کافرق اُس وقت واضح ہوا جب شہزادے نے کہا تھا ہم کسی ایسی قیادت کے انتظار میں تھے جس پر اعتبار کیا جا سکے۔ اس دورے میں جتنی بڑی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے اس دوست ملک کے ساتھ پچھلے چالیس برس اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں نظر آیا۔ سعودی ولی عہد نے اس کے علاوہ بھی ہمیں کئی تحفے دئیے۔ انہوں نے خود کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر قرار دیا۔ انہیں تو وہ پاکستانی جس نے 2009میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں سیلاب کے دوران 14افراد کی جان بچائی اور خود شہید ہو گیا، بھی یاد تھا اُس کے نام پر خیبر پختونخوا میں فرمان علی ہیلتھ سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا۔ میزبان کے کہنے پر سعودیہ کی جیلوں میں موجود پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا ’’عمران خان کی قیادت میں پاکستان بہت آگے جائے گا‘ پاکستان ایک اہم ملک بن کر ابھرے گا‘ ہمیں مل کر بہت کچھ کرنا ہے‘ پاکستان میں مزیدسرمایہ کاری کریں گے‘‘ اور کانٹے بچھانے والے پریشان ہیں کہ عمران خان کے رستوں میں تو پھول کھلنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یقیناً پاکستان پر احسان عظیم کیا ہے۔ یہ اُسی کا کرم ہے کہ امریکی اخبار کہہ رہے ہیں ’’پوری عرب دنیا عمران خان کے اردگرد منڈلا رہی ہے‘‘ انڈین تھنک ٹینک نے بھی اپنی حکومت کو بتا دیا ہے کہ اب پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا وہ بہت جلد ایک بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔
اگلے مہینے مہاتیر محمد کو آنا ہے۔ عمران خان نے انہیں تیئس مارچ کے دن پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ان کے ساتھ دو بلین ڈالر بھی آئیں گے اور معیشت کا ملائیشین ماڈل بھی۔ یقیناً اس موقع پر چین اور سعودیہ کے بعد ملائیشیا بھی سی پیک میں شامل ہو جائے گا۔ عمان بھی سی پیک میں شامل ہونے پر غور کر رہا ہے، عمان نے مسقط سے گوادر تک ریلوے ٹنل بنانے کی آفر کی ہے۔ سی پیک میں چین کے باسٹھ بلین ڈالر، سعودیہ کے پچیس تیس بلین ڈالر، ملائیشیا اور عمان کے بلین ڈالر، روس کے دس بلین ڈالر، ان کے علاوہ بھی کئی اور ممالک کے سی پیک میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ یعنی وہ پاکستان جس کی بشارت قائداعظم کو چارہ ساز بیکساں پیغمبرِ انسانیت ﷺ نے دی تھی وہ منزلوں سے ہمکنار ہونے والا ہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب ترقی یافتہ ممالک سے لوگ پاکستان میں ملازمت کرنے آیا کریں گے۔