• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کا تاریخی دورہ کرنے کے بعد واپس جا چکے ہیں، ایک طرف کسی سعودی فرمانروا یا ولی عہد کی سطح کی معزز سعودی شخصیت تقریباً سولہ سال کے طویل عرصے بعد پاکستان آئی تھی تو دوسری طرف بیس گھنٹے کے قیام کے دوران پہلی بار 20ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدوں کی یادداشتوں پہ دستخط کئے گئے۔ سعودی ولی عہد نے یقین دلایا کہ یہ پہلا مرحلہ ہے، سعودی عرب اس سرمایہ کاری کو بڑھاتا رہے گا۔ اس دورے میں میزبان اور مہمان کے درمیان روایتی تکلف کی بجائے غیر معمولی گرمجوشی، بے تکلفی اور انتہائی قربت دیکھنے میں آئی، جہاں سعودی ولی عہد نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت کو گریٹ لیڈر شپ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے آگے بڑھنے کے یقین کا اظہار کیا وہیں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی سعودی عرب میں قید تین ہزار پاکستانیوں کی رہائی کی درخواست پہ فوری احکامات بھی جاری کر دئیے، جس کے بعد سالہا سال سے سعودی جیلوں میں قید ان بے بس پاکستانیوں کی رہائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری کہ بعض حکومتی شخصیات کے دعوئوں کے برعکس سعودی شاہی خاندان، شریف خاندان کے ساتھ اپنے تعلقات کی آج بھی دل سے قدر کرتا ہے۔ سعودی ولی عہد نے سینیٹرز سے ملاقات کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف کے لیے دلی احترام کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ آج بھی ان کے دل میں بستے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد کے درمیان ایک نکتے پر مکمل ہم آہنگی دیکھنے کو ملی۔ اور وہ نکتہ سعودی عرب میں مقیم 25لاکھ سے زائد ان پاکستانیوں کا ہے جو اپنے پیاروں سے دور وہاں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد نے ان پاکستانیوں کے کردار کو بھی سراہا اور اعتراف کیا کہ سعودی عرب کی ترقی میں ان پاکستانیوں نے بھرپور خدمات سر انجام دی ہیں۔ سعودی عرب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جواں قیادت میں پاکستان کے لیے دیدہ دل فرش راہ کیے ہوئے ہے لیکن سیاسی اور دفاعی شراکت داری کے اب معاشی تزویراتی شراکت داری میں تبدیل ہونے کے نئے عمل سے پاکستان کو بھی بھرپور استفادہ کرنا ہو گا۔ پاکستان سب سے زیادہ جس شعبے میں سعودی عرب سے معاشی فائدہ لے رہا ہے وہ افرادی قوت کی فراہمی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے عالمی کساد بازاری کے سعودی عرب پہ پڑنے والے اثرات کے باعث وہاں ملازمت کے مواقع میں کمی پیدا ہوئی۔ ہزاروں پاکستانیوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے تاہم اب دوبارہ سعودی کمپنیوں کے فعال ہونے سے ایک بار پھر ملازمتوں کی راہیں کھل رہی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب کی پاکستان سے درکار افرادی قوت اس وقت صرف نجی شعبہ پوری کر رہا ہے جبکہ حکومت کی سطح پہ سوائے نجی شعبے سے مال اینٹھنے کے، اس افرادی قوت کو بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ مجموعی طور پہ 1971ء سے 2018ء تک 51لاکھ 36ہزار 381پاکستانی نجی شعبے کے ذریعے ملازمتوں کے لیے سعودی عرب گئے جس میں حکومتوں نے مختلف مدوں میں محاصل اکٹھے کرنے کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ دیگر خلیجی ریاستوں میں بھجوائے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد سعودی عرب کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ افرادی قوت سعودی عرب بھجوانے میں حکومت کیا کردار ادا کر رہی اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے، نجی شعبے میں موجودہ تقریباً دو ہزار لائسنس ہولڈرز پروموٹرز کو ریگولیٹ بھی پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن (پوئپا) خود ہی کر رہی ہے۔ پوئپا کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اسد حفیظ کیانی سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب سے ویزا لینے سے کسی پاکستانی کو بھیجنے تک سب امور نجی ٹور آپریٹرز خود ہی سر انجام دیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سعودی عرب جانے والے ہر پاکستانی مزدور پہ 2500روپے اسٹیٹ لائف انشورنس فیس عائد ہے جبکہ کسی حادثے کی صورت میں اس کے اہلخانہ کو صرف دس لاکھ روپے کی رقم ملتی ہے۔ اسی طرح دیارِ غیر میں مزدوری کے لیے جانے والے غریب پاکستانی سے او پی ایف یعنی اوور سیز پاکستانیز فائونڈیشن کے نام پہ دو ہزار روپے فی کس وصول کئےجاتے ہیں۔ ایک اور مضحکہ خیز حکومتی اقدام یہ ہے کہ 2010ء میں بدترین سیلاب کے بعد مزدوری کے لیے جانے والے انہی بیچاروں پہ فی کس ایک ہزار روپے فلڈ ٹیکس عائد کر دیا گیا جو آج نو سال گزر جانے کے بعد بھی ختم کرنے کے بجائے کم کر کے پانچ سو روپے فی کس وصول کیا جا رہا ہے، اسی طرح نجی ٹور آپریٹرز پہ 16فیصد ٹیکس عائد تھا، جو پیپلز پارٹی حکومت نے سندھ میں کم کر کے 5فیصد کر دیا تھا لیکن پنجاب، وفاق اور دیگر صوبوں میں ابھی تک 16فیصد ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان جن کا کہنا ہے کہ مجبوریوں کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر دیار غیر میں مزدوری کرنے والے یہ پاکستانی ان کے دل کے بہت قریب ہیں، خدارا ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس ظلم کو فوری رکوائیں، فلڈ جیسے ناجائز ٹیکسوں کو فی الفور ختم کیا جائے۔ ان غریبوں کے ساتھ جاری لوٹ مار بند کی جائے اور پاکستانی افرادی قوت کو سعودی عرب بھیجنے والے نجی شعبے کی بھرپور حوصلہ افزائی کے ساتھ بیرون ممالک میں موجود سفیروں اور ویلفیئر اتاشیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ویزوں کے حصول کے لیے ان کی معاونت کی جائے۔

تازہ ترین