• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر طاہر القادری کا ”انقلاب “ آخر کیا گل کھلائے گا فی الحال معلوم نہیں مگر ان کے 23دسمبر والے دھماکہ خیز عوامی جلسے اور بعد کی بھرپور مہم نے بہت سے ذہنوں میں بے شمار خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ ڈر اس بات کاہے کہ علامہ کہیں ایسے حالات نہ پیدا کر دیں کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑے اورجمہوریت کا بوریا بستر پھر گول کر دیاجائے، یہ خطرات بلا جواز نہیں۔ اگرچہ جمہوریت گزشتہ 5سال سے چل رہی ہے مگر اس کی مضبوطی کے لئے ابھی اسے بہت سی منازل طے کرنی ہیں ۔ ڈاکٹر قادری کا کچھ اسٹیک پر نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ مارشل لاء (اللہ کرے ایسا کبھی نہ ہو) لگنے کی صورت میں ان کا ”ایجنڈا“ مکمل ہو جائے اور وہ پھر اپنے ملک کینیڈا واپس چلے جائیں ۔ ایسے شوشے ہر الیکشن سے قبل چھوڑے جاتے ہیں اور ایکٹرز کو میدان میں اتارا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہلا دینے والے واقعات جیسے2008ء کے عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا بھی رونما ہوتے ہیں، مقصد صرف اور صرف انتخابات سے جان چھڑانا ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ بار بار کے مارشل لاء نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے ہم پھر بھی گھناؤنی سازشوں سے باز نہیں آتے اور اپنے مخصوص ” ایجنڈے “ کی تکمیل کے لئے مختلف اسکیمیں تیار کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر قادری کے ”انقلاب “ کا انجام 14جنوری کو سامنے آجائے گا مگر یہ بات طے ہے کہ ان کی ایک لمبے عرصے بعد پاکستان دھماکہ خیز واپسی نے ملک کی سیاست میں بہت بڑی ہلچل پیدا کر دی ہے ۔ بڑی سیاسی جماعتیں بشمول نون لیگ اور پیپلزپارٹی پریشان ہیں اور فی الحال اپنی واضح حکمت عملی نہیں بنا سکیں کہ قادری فیکٹر سے کامیابی سے کیسے نمٹا جائے۔ وہ صرف ردعمل کی سیاست کر رہی ہیں اور اپنا زیادہ تر وقت قادری کے فرمودات کا جواب دینے میں لگی ہیں ۔ وہ مکمل کنفوژڈ ہیں کہ 14جنوری کے ”انقلاب “ کا کیسے مقابلہ کرنا ہے ۔ نون لیگ کو یقین ہے اور جو صحیح بھی لگتا ہے کہ ڈاکٹر قادری کو میدان میں اتارنے کامقصد صرف اور صرف اسے سیاسی طور پر نقصان پہنچانا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات آسانی سے جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ پیپلزپارٹی کی حالت بہت پتلی ہے اسے قادری فیکٹر سے پریشانی کے علاوہ سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہے کہ اس کے مضبوط اتحادیوں  متحدہ قومی موومنٹ اور قاف لیگ نے ڈاکٹر قادری کے ایجنڈے کی بھرپور حمایت کر دی ہے جو دونوں جماعتوں کی موقع پرستی کی بہت بڑی مثال ہے ۔ دونوں حکومت کے مزے بھی لوٹ رہی ہیں اور ڈاکٹر قادری کے ”انقلاب “ کی حمایت بھی کر رہی ہیں جو دراصل حکومت وقت کے خلاف ہے۔ قاف لیگ پرویز مشرف کے پورے دور اور گزشتہ 5سال سے برسر اقتدار ہے اسے اس دوران کبھی خیال نہیں آیا کہ انتخابی اصلاحات جس کا ڈھنڈورا ڈاکٹر قادری پیٹ رہے ہیں کانفاذ کریں اور ملک کو ”کرپٹ نظام “جس کا وہ خود حصہ ہیں، سے نجات دلائیں ۔ اس سے بڑھ کر تو ایم کیو ایم ہے جو 1985ء سے لے کر آج تک ہمیشہ حکومت میں رہی ہے اور آج”ا نقلابی “ ڈاکٹر کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا لیا ہے ۔مزیداری کی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کے ”انقلاب “کا سب سے بڑا سیاسی سہارا قاف لیگ  ایم کیو ایم اور ڈاکٹر قادری تھے ۔چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا حصہ بھی اس” کار خیر“ میں کچھ کم نہ تھا ۔ ڈاکٹر قادری تو پرویز مشرف کو چھوڑ کر 6سال قبل کینیڈا چلے گئے اور وہاں کی شہریت لے لی ۔
مگر قاف لیگ اور ایم کیو ایم نے اقتدار کا خوب مزہ لوٹا ۔ وفاقی حکومت حیران ہے کہ ایم کیو ایم اور قاف لیگ جس ”انقلاب“ کی اب حمایت کر رہی ہے نے کبھی بھی اس کے ساتھ 5سال سے کام کرتے ہوئے ذکر تک نہیں کیا۔ ایم کیو ایم تو ابھی گھوڑے پر سوار ہے یہاں تک کہ ڈاکٹر قادری کا کراچی میں جلسہ بھی کرا دیا ہے۔ مگر قاف لیگ کو فوراً خیال آگیا کہ اس نے آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی سے اتحاد بھی قائم رکھنا ہے لہٰذا اس نے ”انقلاب“ کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ڈاکٹر قادری کے لانگ مارچ میں شریک نہیں ہو گی۔ اب صدر آصف علی زرداری اور وزیر داخلہ رحمن ملک ان کوششوں میں لگے ہیں کہ الطاف حسین کو ڈاکٹر قادری سے دور کریں۔ اگر ایم کیو ایم کی سیاست کو سامنے رکھا جائے توان کی کامیابی کا کافی امکان ہے۔
ڈاکٹر قادری نے ڈی چوک پارلیمینٹ جہاں انہوں نے اپنے تمام ”انقلابیوں“ کو 14جنوری کو جمع کرنا ہے مصر والا تحریر اسکوائر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حسنی مبارک کون ہیں جن کے خلاف وہ ”انقلاب “لا رہے ہیں۔ ہمارے ساتھی حامد میر اپنے کپیٹل ٹاک پروگرام میں مہمانوں سے پوچھتے رہے کہ پاکستان کا حسنی مبارک کون ہے مگر انہیں جواب نہ مل سکا اور ان کا تجسس برقرار رہا۔ پاکستان میں اس وقت کوئی ڈکٹیٹر نہیں جو 30سال سے حکمران ہو اور جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہو۔ آصف زرداری کو حسنی مبارک کہنا انتہائی لغو ہو گا۔
پاکستان میں جمہوریت ہے  پارلیمان موجود ہے عدلیہ آزاد ہے اور جرأت مندانہ فیصلے کر رہی ہے سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں کام کر رہی ہیں جو چاہے کسی پر سخت سے سخت تنقید کرنے کا حق استعمال کر رہا ہے ایک جمہوری حکومت اپنی 5سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہے اور پُرامن انتقال اقتدار کے لئے تیار ہے اور افواج پاکستان اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں لہٰذا پاکستان میں نہ تو مصر والے حالات ہیں اور نہ ہی کوئی حسنی مبارک۔ ڈاکٹر قادری جیسے عالم فاضل کو اپنے فرمودات میں الفاظ کے چناؤ اور اصطلاحات کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتنی چاہئے ۔ ڈی چوک کو تحریر اسکوائر بنانے کی بات کر کے انہوں نے صرف اپنے آپ کو مذاق ہی بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الطاف حسین کا فوج کو یہ کہنا کہ وہ انقلاب کے رستے میں رکاوٹ نہ بنے، انتہائی نامناسب اور قابل مذمت ہے۔ جلسے کرنا  جلوس نکالنا اور لانگ مارچ کرنا نہ صرف ڈاکٹر قادری بلکہ ہر سیاسی تنظیم اور جماعت کا آئینی حق ہے مگر دھمکیاں دینا غیر قانونی ہیں۔ وہ شوق سے اسلام آباد میں دھرنا دیں اور اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں۔ ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے ۔ ڈاکٹر قادری بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ بالکل پُرامن رہیں گے مگر ساتھ ساتھ غیر آئینی باتیں بھی کر رہے ہیں جیسے کہ ان کی ”عوامی پارلیمینٹ “ نگران حکومت کا فیصلہ کرے گی۔ کون بے وقوف ان کا مطالبہ مانے گا۔ آئین جس کی پابندی کا وہ بار بار اعادہ کر رہے ہیں صاف کہتا ہے کہ نگران حکومت کس طرح بنتی ہے اس میں عوامی پارلیمینٹ کا کوئی عمل دخل نہیں۔
تازہ ترین