افسر اعلیٰ کا قواعد کے خلاف ماتحت کو رعایت دینا
تفہیم المسائل
سوال:۔ میں نے ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں سربراہ کی حیثیت سے کام شروع کیا ہے ،یہاں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے یا اسےکوئی ناگہانی حادثہ پیش آجائے تو ادارہ رجسٹر پر حاضری لگا کر اس کے اکاؤنٹ میں تنخواہ بھجواتا رہتا ہے، یہ عمل کئی ماہ اور بعض اوقات سال بھر تک رہتا ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتاہوں ،جو شخص بیمار ہے اور رخصت کے بغیر گھر بیٹھا بغیر کام کیے تنخواہ لے رہا ہے ،کیا یہ اس کے لیے یہ حلال ہے ؟ ادارے کے جو افراد صرفِ نظر کرتے ہیں ،کیا وہ بھی اعانتِ جرم کے مرتکب ہوئے ؟ کیا ایسے بیمار شخص کی اس انداز سے مدد کرنے کی کوئی شرعی گنجائش ہے؟ ادارے کے مفادات کا تحفظ کرنے میں سربراہ کی فلاح ہے یا کسی شدید مرض میں مبتلا فرد کی اعانت کرنے میں؟ (ڈاکٹر ابو حمیس ،حیدرآباد)
جواب: جس دور میں ہم رہ رہے ہیں ،اس میں ملازمین کے لیے قانون میں کچھ مراعات مقرر ہیں ،مثلاً : با تنخواہ اتفاقی رخصت ، سال میں مقرر ہ ایام کی با تنخواہ رخصت اور طبی رخصت وغیرہ۔ اسی طرح حاملہ عورت کے لیے زچگی کے ایام کی رخصت ،بلکہ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے ایسے شوہر کے لیے بھی جس کی بیوی کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے ، دس دن کی رخصت کا اعلان کیاہے ، بیوہ کے لیے شوہر کی وفات کی صورت میں عدتِ وفات کی رخصت وغیرہ۔ مختلف اقسام کی ان رخصتوں میں انہیں مقررہ اجرت یا مشاہرہ کا حق دار سمجھاجاتاہے ۔اس کے علاوہ ملازم کو بلاتنخواہ بھی رخصت کی رعایت ہوتی ہے ،یعنی مقررہ اجرت یا تنخواہ نہیں دی جاتی ،لیکن ملازمت جاری رہتی ہے اور وہ واپس آکر اپنی ڈیوٹی پر کام شروع کردیتاہے۔ان تمام صورتوں میں قواعدوضوابط طے شدہ ہوں یا عرف وعادت میں مُسلّم اور معمول بہا ہوں، ان پر عمل درآمد جائز ہے۔
ایسا ملازم جو ڈیوٹی سے غیر حاضرہو اور اس کے دفتر یا محکمے کے ساتھی رجسٹر پر اس کی حاضری لگادیتے ہوں اور وہ باقاعدگی سے تنخواہ لیتا ہو ،تو شرعاً یہ تنخواہ اس کے لیے جائز نہیں ہے اور اس کے دفتر یا محکمے کے ساتھی کا اپنے غیر حاضر ساتھی کی جگہ دستخط کرنا خیانت ،جھوٹی شہادت اور گناہ میں تعاون ہے ،جو قرآن کریم کی رُو سے ممنوع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ:’’ اورگناہ و ظلم پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو،(سورۃ المائدہ:2)‘‘۔
بیمار کے ساتھ ہمدردی اچھی بات ہے ،لیکن اس کے لیے مال سرکار میں خیانت درست نہیں ہے اور نہ ہی متعلقہ محکمے یا افسران کی منظوری کے بغیر ملازم کایہ تنخواہ لینا درست ہے ، البتہ اگر کسی ملازم کو دائمی مہلک بیماری یا معذوری لاحق ہوگئی ہو اور وہ قابلِ کار نہ رہا ہو،تو چونکہ حکومت کی حیثیت مُربّی کی سی ہوتی ہے، اس لیے اسے ایسے لوگوں کی کفالت اپنے ذمے لینی چاہیے ،خواہ پوری تنخواہ یا اس کے نصف یاکسی حصے کے برابر ضابطہ بنالیں ۔اسی طرح جو بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے ہیں، اُن کے ہاں بھی ایسے قوانین ہونے چاہئیں ۔
بعض فقہائے کرام نے اپنے عہد کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ چھٹیوں یا غیر حاضری کی بناءپر معزولی یا چھٹیوں کی تنخواہ کے استحقاق کے حوالے سے بات کی ہے،لیکن آج کل ملازمین کے لیے حکومتوں نے ملازمت کے قواعد وضوابط کو قانونی شکل دے دی ہے، اب سرکاری ملازمین پر وہی قواعد وضوابط لاگو ہوں گے ،اسی طرح صنعتی اور کاروباری اداروں کے لیے لیبر لاز ہیں ، مگر آپ کا ادارہ چونکہ سرکاری ادارہ ہے ،تو آپ کو حکومتی قواعد وضوابط کی پابندی کرنی چاہیے ۔آپ کا منصب آپ پر اپنے ماتحت ملازمین کے حوالے سے جو ذمے داری عائد کرتاہے ،آپ پر اس کی پابندی لازم ہے ،آپ اپنے ماتحت ملازمین کو وہی مراعات دے سکتے ہیں ،جن کا اختیار قواعد ملازمت کی رُو سے آپ کو حاصل ہے ۔اپنے دائرہ ٔ اختیار سے زیادہ کسی ماتحت کو رعایت دینا خیانت ، قانون شکنی اور شریعت کی روسے منع ہے ،یہ تو اردو محاورے کے مطابق ’’حلوائی کی دکان پر ناناجی کی فاتحہ ‘‘ والی بات ہوجائے گی ۔آپ اپنے ذاتی وسائل سے مصیبت میں مبتلا کسی شخص کی اعانت کریں تو عنداللہ اجر پائیں گے ۔