• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شفقت محمود نے درست کہا ہے کہ ’’جس روز اسمبلی میں پلوامہ کے بارے میں بات ہونا چاہئے تھی، پاکستان سے متعلق بات ہونا چاہئے تھی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بدعنوانی اور کرپشن کے تحفظ کی باتیں ہو رہی ہیں‘‘ تعلیم کے وفاقی وزیر نے لگے ہاتھوں دونوں جماعتوں کو آئینہ بھی دکھا دیا کہ ’’آپ حکومتوں میں تھے، آپ نیب قوانین کیوں نہ بدل سکے، موجودہ چیئرمین نیب بھی آپ کی مرضی سے لگا، ہمارا تو کوئی قصور نہیں اگر کسی کا احتساب ہوتا ہے تو جمہوریت کیسے خطرے میں پڑ جاتی ہے؟‘‘

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس نے پاکستانی سیاست دانوں کا ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کر کے رکھ دیا وہ کس طرح اپنے کرپٹ ساتھیوں کے تحفظ کیلئے تقریریں کرتے ہیں، کس طرح احتساب کے عمل کو جمہوریت دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں، کس طرح کرپشن کی محبت میں اسپیکر ڈائس کا گھیرائو کرتے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دان کرپشن کی محبت میں پاکستان کا مقدمہ بھول جاتے ہیں، پاکستان کا دشمن پاکستان کے خلاف باتیں کر رہا ہے، گاندھی کے ہندوستان میں پاکستان کا نام لینا سزا بن چکا ہے، کشمیریوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے، جنوبی ایشیاپر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ایسے ماحول میں پاکستان کی دو سابق حکمران پارٹیوں کے اراکین کرپشن کے حق میں گیت گا رہے ہیں۔ مزید قابل افسوس بات یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کے حق میں بھارتی وکیل نے بطور ثبوت سابق وزیراعظم نواز شریف کا وہ بیان پیش کیا ہے جو انہوں نے ممبئی حملے کے موقع پر دیا تھا۔ پتہ نہیں اس پر پاکستانی سیاست دان کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ پاکستان کے سیاست دان اس وقت کیا موقف اختیار کریں گے جب ایک اہم پاکستانی سیاست دان کے چار بھارتی منیجروں کا تذکرہ سامنے آئے گا۔ سیاست کے کھیل میں بدعنوانی کے ساتھ ساتھ اور کیا کچھ ہوتا رہا ہے یہ سب کچھ سامنے آنے والا ہے۔ عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتیں عوام کو سڑکوں پر لانے میں ناکام ہو چکی ہیں، اس ناکامی میں عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔ عمران خان نے دو دنوں میں دو چھکے مار کر اپنے ہم وطنوں کے دل جیت لئے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب سے پاکستانی قیدی چھڑوا کر غریب پاکستانیوں کے دل فتح کئے اور اس سے اگلے دن بھارت کو کرارا جواب دے کر پورے ملک سے محبتوں کو سمیٹا۔ موجودہ عالمی حالات میں عمران خان کی سفارتی مہم نے بھارت کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ چین، روس اور امریکہ سمیت کئی طاقتور ملکوں نے پلوامہ دھماکے پر بھارتی موقف کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ نے تو دہلی میں بیٹھ کر وہی موقف اپنایا جو موقف پاکستان کے وزیراعظم کا ہے۔

ایک طرف بھارت کو سفارتی محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہندوستان کے اندر سے مودی کو کوسا جا رہا ہے۔ مودی کے خلاف یہ آوازیں مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہی نہیں آ رہیں بلکہ ان آوازوں میں بھارت کی اعلیٰ عدالتی شخصیات کی آوازیں بھی شامل ہیں، ان آوازوں میں اقلیتوں سمیت ایسے طبقات کی آوازیں بھی شامل ہیں جو بھارت کو گاندھی کا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی جسے پورا ہندوستان باپو کہتا ہے، مہاتما گاندھی کے طور پر مشہور ہے، مہاتما گاندھی نے ہمیشہ عدم تشدد کی بات کی تھی، وہ عدم تشدد کے پیشوا تھے، افریقہ میں بائیس برس گزارنے والے، لندن سے بار ایٹ لا کرنے والے دھوتی پوش مہاتما گاندھی عدم تشدد کی بات کرنے کے باعث مقبول ہوئے مگر گاندھی کا ہندوستان اسی وقت مر گیا تھا جب آزادی کے ساڑھے پانچ ماہ بعد ایک جنونی ہندو نتھورام نے مہاتما گاندھی کو مار دیا بس اس کے بعد سے ہندوستان جنونیوں کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ پہلے جنون میں شدت کم تھی مگر مودی نے اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں ہر طرف آگ اور موت کا کھیل ہے جب ہر طرف آگ ہی آگ ہو تو پھر کسی دوسرے ملک سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پلوامہ دھماکے کے بعد پرتشدد لہر نے ہندوستان کی اقلیتوں کو گجرات کے خونی واقعات، دربار صاحب، گولڈن ٹیمپل کی توہین، بابری مسجد کی شہادت، دلتوں کی ذلت، چرچ جلائے جانے والے واقعات سمیت بہت کچھ یاد کروا دیا ہے۔ پورے ہندوستان میں کشمیریوں پر زندگیاں تنگ کر دی گئی ہیں کشمیر کے اندر تو عرصے سے ظلم کا راج تھا مگر اب دہلی، موہالی اور اترا کھنڈ میں بھی کشمیری تاجروں اور طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تشدد کی حالیہ لہر اس قدر خوفناک ہے کہ بہت سے طالب علموں کو گورد واروں میں پناہ لینا پڑی۔ بھارت میں بسنے والے سکھ اس وقت بہت پریشان ہیں، کشمیریوں پر ہونے والا ظلم ان سے دیکھا نہیں جا رہا۔ گورونانک کے ماننے والے بھی ہندوئوں سے دھوکہ کھا چکے ہیں، انہوں نے پہلا دھوکہ اس وقت کھایا تھا جب چالیس کی دہائی میں ہندوئوں نےچکوال کے ایک ہندو ماسٹر تارا سنگھ کو سازش کے تحت سکھوں کا لیڈر بنا دیا تھا ۔ سکھوں پر دوسرا حملہ گولڈن ٹیمپل کی توہین تھی۔ خالصتان تحریک کا نام استعمال کر کے سکھوں کا قتل عام کیا گیا آج بھی سکھ مائیں 80ءکی دہائی کا زمانہ یاد کر کے لرز جاتی ہیں جب سکھ مائوں کے سامنے ان کے بچے مار دیئے گئے تھے۔

میں نے تین ہفتے پہلے لکھا تھا کہ اس سال بہت امکان ہے کہ کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تمام کشمیری نوجوان آزادی کی تحریک کا حصہ بن چکے ہیں، آٹھ لاکھ بھارتی فوج ناکام ہو چکی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت علیحدگی کی سترہ تحریکیں عروج پر ہیں۔ بھارتی فوج کہاں کہاں کنٹرول کرے گی۔ کیا وہ تری پورہ، ناگا لینڈ، مہزورام اور پنجاب کو سنبھال پائے گی یا پھر تامل ناڈو، اور  ہماچل پردیش یا آسام کو سنبھال پائے گی؟ بھارتی فوج کشمیریوں کا مقابلہ کیسے کرے گی کیونکہ پوری وادی پکار رہی ہے کہ

ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہماراہے

تازہ ترین