• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی مقدمات پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہیں، سینئر ماہرین قانون

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینئر ماہرین قانون نے کہا ہے کہ جعلی مقدمات پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہیں، ججوں کو میڈیا میں گفتگو نہیں کرنی چاہئے دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، ججوں کی تقرری کے ساتھ ان کے احتساب کا طریقہ بھی ٹھیک ہونا چاہئے،قانون ساز طاقت کے اصل مرکز اور دوسرے مرکز عدالت سے کمپرومائز کرتے ہیں، جعلی مقدمات اتنا بڑا مسئلہ نہیں بڑا مسئلہ مظلوم کو انصاف فراہم کرنا ہے، اکبر بگٹی کو کسی ایک آدمی نے نہیں سسٹم نے شہید کیا ہے، ازخود نوٹس لینے کا اختیار طاقتور کے مقابلہ میں مظلوم کیلئے سیفٹی وال ہے، ازخود نوٹس کے استعمال کا طریقہ کارطے اور اس میں اپیل کا حق ہونا چاہئے، مختلف نوعیت کے مقدمات کیلئے الگ الگ عدالتیں ہونا چاہئیں تاکہ مقدمات کا بوجھ ختم ہو، ججز کی تقرری کیلئے عدلیہ اور پارلیمنٹ کی ایک باڈی ہونی چاہئے، ایک ایسا جیوڈیشل کمیشن بنانا چاہئے جس میں پارلیمنٹ کے ارکان بھی شامل ہوں،جھوٹا مقدمہ کرنے والوں کیخلاف بہت بڑا جرمانہ اورفوجداری کارروائی کی جانی چاہئے، ججوں کی تقرری کے حوالے سے طریقہ کار پر نظرثانی کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کو اعتماد میں لے کر ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی کرسکتی ہے۔سینئر وکیل سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ،صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرائی،وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ اور ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے ان خیالات کا اظہار جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میرسے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔امان اللہ کنرائی نے کہا کہ جعلی مقدمات سے بڑا مسئلہ مظلوم کو انصاف فراہم کرنا ہے، ضروری نہیں ہے ہر کیس میں گواہی جھوٹی ہو البتہ گواہی کے پیرامیٹرز میں فرق آجاتا ہے، اصل کام جرم کے خاتمے کا میکنزم بنانا ہے، دیکھنا چاہئے لوگوں کو انصاف مل رہا ہے یا نہیں۔امان اللہ کنرائی کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے ساتھ ججوں کامعیار بھی بڑھانے کی ضرورت ہے، رشتہ دار بھرتی کیے جائیں گے تو ججوں کا ویژن کیا ہوگا، عدلیہ کے اندر اوورہالنگ کی ضرورت ہے، اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کی ذمہ دار ریاست ہے، اکبر بگٹی کو کسی ایک آدمی نے نہیں سسٹم نے شہید کیا ہے، اس سسٹم میں جو لوگ بھی شامل تھے انہیں کٹہرے میں لایا جائے،ریاست کا سسٹم ہے جس میں لوگ اس طرح مرتے یا شہید ہوتے ہیں، مشرف کو پھانسی ہونا حل نہیں ہے بلکہ وہ سسٹم ختم کیا جائے جس کے ذریعہ پرویز مشرف نے حکم دیا۔امان اللہ کنرائی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار طاقتور کے مقابلہ میں مظلوم کیلئے سیفٹی وال ہے، یہ انصاف کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے اس راستہ کو بند کرنے کا مطلب شکا ر کو کتوں کے سامنے چھوڑ دینا ہے، ازخود نوٹس کے استعمال کا طریقہ کارطے اور اس میں اپیل کا حق ہونا چاہئے، ازخود نوٹس کا استعمال ایسے معاملات میں کیا جائے جہاں کوئی اور راستہ نہ ہو، عدلیہ دوسروں کا احتساب کرتی ہے تو اپنا بھی احتساب کرے، عدلیہ پہلے ججوں کی تقرری کا طریقہ درست کرے۔ امان اللہ کنرائی کا کہنا تھا کہ اس وقت جوڈیشل کمیشن کا طریقہ کار اٹھارہویں نہیں انیسویں ترمیم کے مطابق ہے، پارلیمنٹ جو آئین منظور کرے سپریم کورٹ اس کی پابند ہے، شریعت کورٹ کے جج کیلئے شریعت کا پابند ہونا ضروری نہیں لیکن گواہ کیلئے تزکیہ الشہود کی پابندی ہے،مختلف نوعیت کے مقدمات کیلئے الگ الگ عدالتیں ہونا چاہئیں تاکہ مقدمات کا بوجھ ختم ہو۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جعلی مقدمات پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہیں، مقدمہ کرنے والا ایک کے بجائے چار لوگوں کو نامزد کردیتا ہے، سول مقدمات میں درست اور غلط دونوں طرح کے مقدمات ہوتے ہیں، اس میں عدالت اور وکیل اپنا کام نہیں کررہے اور مقدمہ کرنے والا سچ بولنے کیلئے تیار نہیں ہے، وکیل بعض اوقات مقدمہ ملتوی کرنے کیلئے فیس لیتے ہیں جس کی وجہ سے انصاف میں دیر ہوتی ہے، عدالت نے وکیل اور فریق مقدمہ کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہتی ہے۔

تازہ ترین