• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد سعیدمغل ایم بی ای…برمنگھم
برطانیہ میں ملٹی کلچرل اور دیگر مذہب کی کمیونٹی آباد ہے، اپنی عبادات اپنے طور اپنے طریقوں سے کرنے کی مکمل آزادی ہے مساجد میں  مسلمان عبادت کرتے ہیں، چرچوں اور گھروں کو بھی مساجد کا درجہ دے کر وقف کیا ہوا ہے اور تمام لوگ بڑے سکون اور آرام سے اپنے اپنے مسلک اور عقیدوں کے مطابق عبادت کرتے ہیں جہاں بھی مسجد بنائی جاتی ہےوہ اللہ کا گھر ہوتا ہے اور مسلمان عبادت کرتے ہیں وہ جگہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی۔ کچھ ہمارے بھائی بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور لمبی لمبی داڑھیاں بھی ہیں، حج اور عمرے بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں جنت کے سرٹیفکیٹ ہماری جیبوں میں ہیں۔ مسلک اور عقیدوں کے نام پر کمیونٹی کو تقسیم کررکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم آپس میں گروپس اور فرقہ واریت میں بٹے ہوئے ہیں جس سے ہمارے مسائل میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور بعض اوقات آپس میں لڑائی جھگڑوں تک نوبت آجاتی ہے اور ہمیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ اسلامی ملک نہیں پھر بھی تقریروں اور تحریروں کی مکمل آزادی ہے جس سے ہم میں سے بعض لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتےہیں۔ یہاں  سے ہمارے کچھ مولوی اور پانی روٹی پڑھے ہوئے حضرات ہماری مساجد کے امام ہیں اور بچوں کو بھی دینی تعلیم دے رہے ہیں اور بطور ٹیچر پڑھاتے ہیں جو کئی جگہوں پر بچوں سے زیادتی کرتے پکڑے گئے اور پولیس نے ان کو چارج کیا اور جرم ثابت ہونے کے بعد سزائیں دی ہیں۔ مگر پھر بھی ہمارے کمیونٹی کے لوگوں نے ان کواپنے مسلک، برادری کی وجہ سے اپنے مفاد کی خاطر بعض مساجد میں دوبارہ رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ لوگوں سے پونڈ اکٹھے کرنے میں تجربہ رکھتے ہیں۔ اب پچھلے کئی ہفتوں سے برمنگھم ووڈ لینڈ جامع ماسک پارک ہل میں کمیٹی کے دو گروپوں میں اختلاف چل رہا ہے جس کے نتیجہ میں دو کمیٹیاں بن گئیں اور اختلافات شدت اختیار کرگئے دونوں گروپس میں جھگڑا اور فساد ہوگیا پولیس نے مداخلت کی۔ ایک گروپس کورٹس میں چلا گیا اور انہوں نے مسجد بند کرنے کا 15فروری تک آرڈر لے لیا جس سے نمازیوں کو سخت پریشانی ہوئی کیونکہ یہ مسجد ماضی میں بڑے اچھے طریقے سے چل رہی تھی۔ برمنگھم اس مسجد کی مثال دی جاتی تھی کہ ایڈمنسٹریشن اچھی تھی، تعلیمی معیار بہت اچھا تھا، ایجوکیشن کے انتظامات بہت اچھے تھے لیکن چند شرارتی لوگوں کی وجہ سے کمیونٹی کو بھی نقصان ہوا اور بچے جو دینی تعلیم لیتے تھے ان کے والدین بھی پریشان ہیں۔ مساجد کمیونٹی کے چندے سے چلتی ہیں وہ جگہ جہاں مسجد بنائی گئی ہو وہ اللہ کا گھر ہوتا ہے وہ جگہ وقف کی ہوئی ہوتی ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی ایسی عبادت گاہوں کو بذریعہ کورٹس بند نہیں کروانا چاہئے اس سے دین کی توہین اور اسلام کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔ جہاں مسجد بنائی جائے وہ جگہ اللہ کے نام وقف ہونی چاہئے ذاتی کسی کی ملکیت نہیں ہونی چاہئے جس سے اس قسم کے فساد پیدا ہوتے ہوں، اس قسم کا ادارہ پبلک کا ادارہ ہوتا ہے اس کو رجسٹرڈ کروانا چاہئے اور کمیونٹی کو بھی چاہئے اس قسم کی مساجد اور تعلیمی ادارے رجسٹرڈ کروایا جائے تاکہ کسی وقت بھی ایسی نوبت نہ آئے، اگریہ معاملہ اس طرح چلتا رہا تو بہت جلد متعلقہ حکام کو انفارم کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اب کورٹس نے فیصلہ کرنا ہے۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہاں آکر اپنی اپنی Feelingظاہر کی جائے کہ مسجد کو کھولنے کا آرڈر دیا جائے تاکہ کمیونٹی میں پائی جانے والی تشویش ختم ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اچھا کام کرنے کی توفیق دے۔ مخلوق خدا کی خدمت کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے اور مخلوق خدا کو تنگ کرنے سے پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور کبھی سکون نہیں ملتا۔
تازہ ترین